Friday, December 12, 2014

حضرت موسٰی علیہ السلام کی نا فرمانی کی سزا



حضرت موسٰی علیہ السلام کی نا فرمانی کی سزا:


بلعم بن باعورہ اپنے دور کا بہت بڑا عابد و زاہد اور جید عالم دین تھا۔ اسے روحانیت میں بڑا کمال حاصل تھا۔ وہ عرش اعظم کو اپنی جگہ بیٹھ کر دیکھ لیا کرتا تھا۔ بارگاہ خداواندی میں اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وہ جو دعا منانگتا قبول ہو جایا کرتی تھی۔
جب حضرت موسٰٰی علیہ السلام سرکش اور نا فرمان قوم “ جبارین“ سے جہاد کرنے کے لئے روانہ ہوئے تو یہ قوم گھبرا گئی اور بلعم ب باعورہ کے پاس آئی اور رو رو کر کہنے لگی اے بلعم حضرت موسٰی علیہ السلام ایک طاقتور فوج کے ساتھ ہماری قوم پر حملہ کرنے آرہے ہیں۔ آپ چونکہ اللہ کے مقرب اور محبوب بندے ہیں آپ کی دعا قبول ہوتی ہے لہذا آپ حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کے لشکر کے لئے ایسی بد دعا کریں کہ وہ شکست کھا کر پلٹ جائیں۔ یہ سن کر بلعم بن باعورہ کانپ اٹھا اور کہنے لگا خدا کی پناہ! حضرت موسٰی علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں اور ان کے لشکر میں مومنوں اور فرشتوں کی جماعت شامل ہے ایسی مقدس ہستی پر میری جرات نہیں ہو سکتی کہ میں ان کے لئے بد دعا کروں ۔ مگر نا فرمان اور بے ادب قوم کا یہ حال تھا کہ وہ مسلسل رو رو کر اور گڑ گڑا کر اصرار کرنے لگی حتٰی کہ بلعم بن باعورہ کا دل نرم پڑگیا اور کہنے لگا پہلے میں استخارہ کروں گا اگر مجھے اللہ کی طرف سے اجازت مل گئی تو بددعا کر دوں گا۔ ۔ جب استخارہ کیا تو اسے اجازت نہیں ملی۔ پھر اس نے اپنی قوم سے ساف صاف کہہ دیا کہ اگر میں اللہ کے نبی کے لئے بد دعا کی تو میری دنیا اور آخرت دونوں ہی برباد ہو جائیں گی۔ لہذا میں بد دعا نہیں کر سکتا۔ قوم جبارین نے مال و دولت اور گراں قدر تحفے اس کی خدمت میں پیش کئے
یہاں تک کہ بلعم بن باعورہ پر حرص و طمع کا بھوت سوار ہو گیا اور مال و دولت کے لالچ میں ایسا مبتلاہوا کہ وہ گدھی پر سوار ہو کر بد دعا کے لئے چل دیا راستہ میں کئی بار ایسا ہوا کہ گدھی ٹھر جاتی اور منہ موڑ کر بھاگنا چاہتی ۔ مگر یہ اس کو مار مار کر آگے پڑھاتا رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے گدھی کو قوت گویائی عطا کی۔ گدھی بولی! اے بلعم بن باعورہ تجھ پر افسوس کہ اللہ کے نبی اور مومنین کی جماعت کے لئے بد دعا کرنے جا رہا ہے ۔ دیکھ میرے آگے فرشتے ہیں جو میرا راستہ روکتے اور میرا منہ دوسری طرف کرتے ہیں۔ گدھی کی ان باتوں کا اس پر ذرا اثر نہ ہوا۔ حتٰی کہ وہ ایک پہاڑ پر چڑھ گیا اور حضرت موسٰی علیہ السلام کودیکھنے لگا ۔ مال و دولت کے لالچ نے اسے مدہوش کر دیا تھا۔ چناچہ اس نے اللہ کے برگزیدہ نبی حضرت موسٰی علیہ السلام کے لئے بد دعا شروع کردی ۔ لیکن خداوند قدوس کی شان دیکھئے کہ وہ بد دعا تو حضرت موسٰی علیہ السلام کے لئے کرنا چاہتا تھا مگر بد دعا اس کی قوم کے لئے اس کی زبان پر جاری ہو جاتی تھی ۔ قوم نے جب یہ دیکھا تو اسے ٹوکا کہ اے بلعم تم تو ہمارے لئے بد دعا کرنے لگ گئے ۔ بلعم کہنے لگا اے قوم کے لوگو! میں کیا کروں میں بولتا کچھ اور ہوں اور میری زبان سے نکلتا کچھ اور ہے ۔ پھر اچانک اس پر خداوند قدوس کا قہر نازل ہوا۔ یکایک اس کی زبان لٹک کر سینے پر آگئی پھر رو رو کر اپنی قوم سے کہنے لگا کہ افسوس میری دنیا و آخرت برباد ہوگئیں۔ نبی کی شان میں بے ادبی کرنے پر میرا ایمان جاتا رہا اور میں غضب الہی میں گرفتار ہو گیا افسوس اب میری کوئی دعا اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہو سکتی۔ ( ملاحظہ کیجیئے تفسیر صاوی جلد دوئم صفحہ 94، تفسیر جلالین سورہ اعراف پ 9، رکوع 22) 
مسلمانو! بلعم بن باعورہ کی المناک داستان کا ذکر قرآن مجید میں سورہ اعراف میں آیا ہے جس سے حقیقت کا پتہ چلا کہ بلعم بن باعورہ کیا تھا اور پھر کیا ہو گیا، مال و دولت کے لالچ اور حرص و طمع نے اسے ایسا جکڑا کہ اس کے لالچ میں اللہ کے نبی کے لئے بد دعا کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ جب تک باادب تھا تو اسے وہ مقام و مرتبہ حاصل رہا کہ مستجاب الدعوات ہوا۔ مگر جب ایک نبی کا بے ادب ہوا اور ان کی شان و عظمت اور ناموس سے کھیلنے کے لئے آیا تو دنیا و آخرت میں ایسا ملعون و مردود ہوا کہ عمر بھر کتے کی طرح لٹکتی ہوئی زبان اپنے سینے پر لئے پھرا۔ سارے اعمال برباد ہوگئے تمام مراتب و کمالات چھین لئے گئے اور جھنم کی بھڑکتی ہوئی شعلہ بار آگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایندھن بن گیا۔
If You Enjoyed This Take 5 Second to Share it.
@
bisma مصنف

No comments:

Post a Comment

ویڈیو

Event more news