Friday, December 12, 2014

قوم نوح کی تباہ کاری



قوم نوح کی تباہ کاری:

حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالٰٰی کے بہت ہی برگزیدہ نبی گزرے ہیں۔ آُ پ کی عمر بہت لمبی تھی ۔ آپ تقریبا ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو دین حق کا پیغام سناتے رہے۔ مگر اس کے باوجود وہ غافل اور نا فرمان قوم آپ کی نبوت پر ایمان نہ لائی بلکہ آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر شیطانی کردار ادا کرتی رہی۔ کئی بار ایسا بھی ہوا اس ظالم قوم نے اللہ کے اس مقدس نبی کو اس قدر اذیت پہنچائی کہ آپ کو ہوش کر دیا اور آپ کو مردہ خیال کر کے کپڑے میں لپیٹ کر مکان میں ڈال دیا۔ مگر اس کے باوجود آپ مسلسل ان کے حق میں دعا فرماتے ۔ اللہ تعالٰٰی کے غضب سے بچانے کے لئے آپ فرماتے ان کے لئے دعائے خیر کرتے۔ آپ فرماتے ! اے میرے رب تو میری قوم کو معاف فرمادے اور ان کو ہدایت عطا فرما۔ جب اس قوم کی نافرمانیاں حد سے تجاوز کر گئیں تو اللہ تعالٰی نے حضرت نوح علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی اور حکم ارشاد فرمایا“ اے نوح علیہ السلام اب تک جو لوگ مومن ہو چکے ہیں ان کے سوا دوسرے لوگ تم پر ایمان ہر گز نہیں لائیں گے۔ لہذا آپ ایک کشتی تیار کریں۔ حکم الہی سنتے ہی آپ کشتی تیار کرنے لگے جو 80 گز لمبی 50 گز چوڑی تھی۔ سو سال تک کی مسلسل جدوجہد کے بعد لکڑی کی یہ تاریخی کشتی تیار ہوئی۔ جب آپ کشتی بنانے میں مصروف تھے تو آپ کی نافرمان قوم آپ کا مذاق اڑاتی۔ کوئی کہتا اے نوح! تم بڑھئی کب سے بن گئے ۔ کوئی یہ کہتا اے نوح1 اس زمین پر کیا تم کشتی چلاؤ گے؟ کیا تمھاری عقل ماری گئی ہے ؟(نعوذ باللہ) غرض طرح طرح سے آپ کا مذاق اڑایا جاتا۔ آپ ان کے جواب میں صرف یہی فرماتے کہ اے نافرمانو! آج تم میرا مذاق اڑا رہے ہو جب خدا کا عذاب طوفان کی شکل میں آئے گا تو پھر تمہیں حقیقت کا پتہ چلے گا۔
اللہ تعالٰی نے وحی کے ذریعہ طوفان آنے کی یہ نشانی بتا دی کہ آپ کے گھر کے تنور سے پانی ابلنے شروع ہوگا ۔ چناچہ پتھر کے اس تنور سے ایک دن صبح صبح پانی ابلنا شروع ہو گیا۔ اسی طرح اللہ تعالٰی کے عذاب اور قہر و غضب کا آغاز ہوا آپ نے کشتی میں درندوں، چرندوں، پرندوں اور مختلف قسم کے حشرات الارض کا ایک ایک جوڑا نر مادہ سوار کرادیا۔ آپ اور آپ کے تین بیٹے حام، سام، یافث اور ان تینوں کی بیویاں آپ کی مومنہ بیوی اور 72 دیگر مومنین مرد و عورت اسی طرح کل 80 انسان کشتی میں سوار ہو گئے۔ آپ کی ایک بیوی جس کا نام واعلہ تھا آپ پر ایمان نہیں لائی تھی۔ اسی طرح آپ کا ایک بیٹا جس کا نام کنعان تھا وہ بھی آپ پر ایمان نہیں لایا تھا یہ دونوں کشتی میں سوار نہیں ہوئے ۔ زمین سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے اور سیاہ بادلوں نے زمین کو گھیر لیا اور مسلسل چالیس روز تک مسلادھار بارش برستی رہی اس طرح آسمان سے برسنے والا بارش کا پانی اور زمین سے نکلنے والے پانی کے دھاروں نے زمین پر ایسا طوفان برپا کیا کہ چالیس چالیس گز اونچے پہاڑوں کی چوٹیاں ڈوبنے لگیں۔
حضرت نوح علیہ السلام مومنین کی کل جماعت کے ہمراہ کشتی میں سوار تھے۔ اس طوفان نے زمین پر وہ تباہی مچائی کہ 80 مومنین کے سوا ساری قوم غرق ہو کر ہلاک ہو گئی اور ان کا نام و نشان ایسا مٹا کہ ان کے وجود کا کوئی حصہ بھی باقی نہ رہا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی چھ مہینے تک طوفانی موجوں پر ایک کمزور تنکے کی مانند ہچکولے کھاتی، چکر لگاتی رہی۔ یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے قریب سے گزری اور سات چکر لگا کر اس مقدس جگہ کا طواف کیا۔ پھر اللہ تعالٰی کے حکم سے یہ کشتی عراق کے شہر جزیرہ کے قریب جودی پہاڑہ پر آکر ٹھر گئی ۔ جس دن یہ کشتی جودی پہاڑی پر ٹھری وہ دس محرم کا دن تھا۔ جب شیطان قوتوں کا خاتمہ ہو گیا تو اللہ تعالٰی نے زمین کو حکم دیا تجھ پر جس قدر پانی ہے سب پی لے ۔ اے آسمان تو اپنی بارش بند کر دے۔ چناچی بارش رک گئی اور پانی کم ہونا شروع ہوا اور پہاڑ کی چوٹیاں نظر آنے لگیں۔اللہ تعالٰی نے حجرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ اے نوح! اب آپ کشتی سے اتر جائے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی سے اتر کر سب سے پہلے جو پستی بسائی اس کا نام “ ثمانین “ رکھا۔ عربنی زبان میں ثمانین کے معنٰی (80) ہوتے ہیں۔ چونکہ کشتی میں 80 افراد تھے اس لئے اس کا نام ثمانین رکھا۔ آپ کی نسل میں بے پناہ برکت ہوئی کہ آپ کی اولاد تمام روئے زمین پر پھیل کر آباد ہو گئی۔ اسی لئے حضرت نوح علیہ السلام کا لقب “ آدم ثانی“ بھی ہے۔

اس تاریخ ساز واقعی کو تفصیلا قرآں مجید میں سورہ ہود کے چوتھے رکوع میں ملاحظہ کیجیئے اور تفسیرصاوی جلد دوئم صفحہ 182 تا 185 ملاحظہ کیجیئے ۔
مسلمانو! حضرت نوح علیہ السلام کے اس واقعہ میں بڑی بڑی عبرتوں کے سامان موجود ہیں جن سےمومنین کے قلوب انوار و تجلیات سے منور اور روشن ہو جاتے ہیں اور شیطان کے پیروکار اور نبی کے گستاخوں کے سر ندامت سے جھک جاتے ہیں ۔ کنعان حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا تھا مگر بے ادب تھا وہ بھی غضب الہی کا شکار ہوا جس سے واضح ہوا کہ اللہ کو بھی وہ لوگ پسند ہیں جن کے دل میں اللہ اور اس کے محبوب نبیوں کے عشق کا چراغ روشن ہو اگر کسی کے دل میں یہ چراغ شعلہ زن نہیں تو خواہ وہ کتنا ہی عزیز اور قریب کیوں نہ ہو اللہ کے قہر کا شکار ہو جاتا ہے اور انبیاء کی شان میں کستاخی کرنے والوں کو عذاب الہٰی اپنی گرفت میں لیکر نیست و نابود کر ڈالتا ہے۔
If You Enjoyed This Take 5 Second to Share it.
@
bisma مصنف

No comments:

Post a Comment

ویڈیو

Event more news