Wednesday, November 26, 2014

خوف الہی' اطاعت وفرمانبرداری کی اساس


خوف الہی' اطاعت وفرمانبرداری کی اساس


حدیث شریف :۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: کوئی بندہ ایمان دار ایسا نہیں ہے کہ اس کی آنکھوں سے آنسو(مکھی کے پر کے برابر کیوں نہ ہو) اللہ تعالی کے خوف سے رخسار پر رواں ہوں اور اللہ تعالی اس پر آتش جہنم حرام نہ کریں۔
حضرت امام غزالی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خوفِ خدائے تعالی کو اس وقت معتبر سمجھو جب کہ وہ تم کو معصیت سے روکے اور گناہ کی جرأت ہونے نہ دے۔
اورفرمایا: خوف الٰہی درحقیقت ایک چابک ہے جو سالک کو سعادت ابدی کی طرف لے چلتا ہے ، اور اسی حدتک پسندیدہ ہے جب تک اس کو نیکوکاری کی طرف مائل کرے۔ یعنی ایسا زیادہ نہ ہوکہ بے قرار بنادے اور مایوسی کی حدتک پہونچا کر اعمال صالحہ چھڑادے ، ایسا حد سے بڑھا ہوا خوف جس سے ناامیدی پیدا ہوجائے شرعاً مذموم ہے ۔
حضرت ابوسعید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہے کہ : خدائے تعالی کا خوف اپنے اوپر لازم کرلو کہ ہر ایک بہتری کی جڑیہی ہے ۔
اور اچھی بات کے سوا سکوت اختیار کرو، اس کے باعث تم شیطان پر غالب آجاؤگے ۔
حضرت جعفر صبیحی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں ابوعمر رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ مجاہدہ کی وجہ سے ان کی پسلیاں نکل آئیں تھیں ، میں نے کہا کہ اتنا مجاہدہ کیوں کرتے ہو؟خدائے تعالی کی رحمت تو وسیع ہے ؟ إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ-(سورۃ الاعراف:56)
(یعنی اللہ تعالی کی رحمت نیکوکاروں کے قریب ہے )
آپ نے غصہ ہوکر جواب دیاکہ تو نے میری کونسی بات ایسی دیکھی جو میری ناامیدی کی دلیل ہے؟
مراد ان بزرگ کی یہ تھی کہ میرا عبادت میں کوشش کرنا اس سبب سے نہیں ہے کہ معاذ اللہ میں کچھ رحمت الہی سے ناامید ہوں ! اپنی سعی وکوشش ومجاہدہ کو موجب نجات سمجھتاہوں ، بلکہ اللہ تعالی نے عالم اسباب میں نیک کاموں کو اپنی رحمت کا سبب فرمایاہے اور ارشاد ہوتا ہے: اللہ تعالی کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے قریب ہے ۔
اسی سبب سے ایسی محنت وریاضت کرتاہوں ۔
حدیث شریف:۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ خدائے تعالی کے ساتھ حسنِ ظن رکھنا چاہئے ، اس کے معنی یہ ہے کہ نیک کام کرتے ہوئے حسن ظن رکھنا چاہئیے نہ کہ معصیت کے ساتھ۔
حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ مجھ پر حق تعالی کے خوف نے غلبہ نہ کیا ہواور اس دن میرے دل پر حکمت اور عبرت کا دروازہ نہ کھلاہو ۔
حضرت یحییٰ بن معاذ رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے پوچھا : کل قیامت کے دن کونسا شخص زیادہ امن میں ہوگا ؟
فرمایا : وہ جو آج حق تعالی سے بہت ڈرتا ہے ۔
حضرت ابوسلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جو دل خوف خدا سے خالی ہے وہ ویران ہے۔
حضرت محمد بن المنکدر رحمۃ اللہ علیہ جب خوف خدا سے روتے تو آنسو چہرے پر مل لیتے اورفرماتے : میں نے سنا ہے کہ جس جس مقام پر یہ آنسو پہونچتے ہیں وہ دوزخ کی آگ میں نہ جلیں گے ۔
حضرت احمد ابن الحواری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
میں نے اپنی مرحوم اہلیہ کو خواب میں دیکھا، ایسی خوبصورت ہے کہ اس کا حسن وجمال کبھی بھی میں نے ایسا نہ دیکھا تھا، روشنی اور نور کے سبب اس کا چہرہ چمکتا تھا ، میں نے پوچھا :تیرا چہرہ اتنا نورانی کیوں ہے؟ اس نے کہا : تمہیں یاد ہوگا فلاں رات تم خوف الہی سے رو رہے تھے ، میں نے کہا: ہاں !مجھے یاد ہے ،کہنے لگی: تمہارے آنسو میں نے اپنے چہر ے پر مل لئے تھے یہ تمام نور اسی وجہ سے ہے ۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ روؤ! اگر رو نہ سکوتو رونے والوں کی صورت توبناؤ !۔
حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس قدر روؤں کہ آنسو میرے چہرے پر آجائیں تو میں اس امر کو زیادہ اچھا سمجھتا ہوں بہ نسبت اس کے کہ ہزار دینار صدقہ دوں ۔
حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے لوگوں نے پوچھا کہ بندۂ خائف کون ہے ؟
فرمایا: وہ جو اپنے آپ کو بیمار کی طرح رکھے ، جو موت کے ڈر سے تمام خواہشات کو دور کردیتا ہے اور ان سے حذر کرتا (بچتا)ہے ۔
حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
خوف الہی تازیانہ کی طرح ہے ،جو لڑکوں کو پڑھنے پر آمادہ کرے اور جانوروں کو راستہ پر چلائے ، لیکن جب تازیانہ اتنا کمزور ہوکہ اس سے چوٹ نہ لگے تو وہ لڑکوں کو پڑھنے پر آمادہ نہ کرسکے گا اور نہ ہی جانوروں کو راستہ پر چلائے گا ۔
یا اگر تازیانہ اتنا سخت ہوکہ اس سے لڑکوں یا جانوروں کا بدن پھٹ جائے، ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائیں توایسا تازیانہ بھی ناقص ہے ، بلکہ خوف کو معتدل ہونا چاہئیے ، تاکہ گناہوں سے بچائے اور عبادت کی رغبت پیدا کرے –
جو شخص اللہ تعالی سے خائف نہ ہو اور عالم ہونے کا دعویٰ کرے وہ درحقیقت عالم نہیں ، بے علم ہے ۔
جیسے کہ بازاری فال گواور پنساری اپنے کو طبیب وحکیم کہتے ہیں اور حکمت سے کچھ بھی خبر نہیں رکھتے –
تمام معرفتوں سے پہلے یہ ہے کہ آدمی اپنے کو اورحق تعالی کی ذات کو پہچانے اور اپنے آپ کو سراپاعیب وتقصیر اور حق تعالی کو پر جلال اور باعظمت سمجھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
اللہ تعالی سے جیسا چاہئیے ویسا ڈرنا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کریں ، نافرمانی نہ کریں ، اس کو یادرکھیں ، بھولیں نہیں، اس کا شکرکریں ، کفران نہ کریں ۔
حضرت اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
بندہ جب تک اپنی زبان کو بند نہ رکھے اللہ تعالی سے جیسا چاہئیے ویسا نہیں ڈرتا۔
حضرت اسحاق علیہ السلام جب بڑے ہوئے اور رسالت کی چادر اوڑھی تو ہمیشہ عبادت الہی اور نمازوں میں مشغول رہتے ، کسی وقت بھی خوفِ خدا سے خالی نہ رہتے، ہمیشہ ڈر کے مارے کانپتے رہتے ، جب رات ہوتی تو آپ زنجیر گلے میں ڈال کر پیٹھ پر باندھ لیتے اور ساری رات اسی طرح بسر فرماتے ، اور دن میں تبلیغ رسالت فرماتے ، چنانچہ ساری عمراسی طرح بسرہوئی ، ایک مرتبہ آپ سے مقررہ وظیفہ ناغہ ہوگیا، اس غفلت کی پاداش میں ندامت سے ستر(70) سال اس طرح روئے کہ رخساروں کا گوشت وپوست گل گیا ، جب سجدہ کرتے تو بسا اوقات کم وبیش سال بھر سجدہ میں رہتے ، جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ اس قدر کیوں روتے ہیں؟
تو فرمایا: صاحبو! میں ڈرتاہوں کہ قیامت کے دن مجھے میرے والد بزرگوار حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے روبرو کھڑا کرکے یہ نہ کہیں کہ یہ تیرا بیٹا تھا جس سے ایک روز وظیفہ ناغہ ہوگیا، اس وقت میں ان کو کیا منہ دکھاؤں گا ؟۔
ایک شخص نے ایک عورت کو پکڑ کر چھری کھینچی، کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ اس کے سامنے جائے اور عورت چلاتی رہی ، حضرت بشرحافی رحمۃ اللہ علیہ اس کے پاس جاکر کاندھے سے کاندھا لگایا، وہ شخص بے ہوش ہوکر گرپڑا اور اس کے بدن سے پسینہ بہنے لگا اور عورت اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی ،اس شخص کو جب ہوش آیا تو لوگوں نے پوچھا: تجھ پر کیا گزری؟ کہا: اس قدر جانتا ہوں کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور اپنا بدن مرے بدن سے ملاکر آہستہ یہ کہا کہ حق سبحانہ وتعالی دیکھ رہا ہے کہ توکہاں ہے اور کیا کررہا ہے-
اس شخص کے یہ کہنے کی وجہ میں ہیبت سے گرپڑا ، لوگوں نے کہا :وہ حضرت بشرحافی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔
اس نے کہا: آہ ! اب اس ندامت کے ساتھ ان سے کس طرح ملوں ؟ اسی وقت اس شخص کو بخار چڑھا اور ایک ہفتہ میں مرگیا –
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔
حضرت عطاء سلمی رحمۃ اللہ علیہ پر خوف الہی اس قدر غالب تھا کہ آپ چالیس (40) سال تک نہ ہنسے نہ ہی آسمان کی طرف دیکھا ، ایک بارجب آسمان پر نظر گئی تو آپ بے ہوش ہوکر گرپڑے ۔ ہمیشہ رات میں کئی باراپنے آپ کو ٹٹولا کرتے کہ کہیں مسخ تو نہیں ہوگیا ہوں ۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کئی سال تک نہیں ہنسے اور روتے رہے ، لوگوں نے عرض کیا: آپ باوجود اس قدر ریاضت وعبادت کے روتے کیوں ہو؟
آپ نے فرمایا :مجھے اس بات کاخوف لگا ہوا ہے کہ مبادا مجھ سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوگیا ہو جس کی وجہ حق سبحانہ و تعالی نے مجھے اپنا نافرمان سمجھا اور فرمائے کہ : حسن! جو تیرا جی چاہے کہہ ، میں کبھی تجھ پر رحم نازل نہ کروں گا۔
ماخوذ از: مواعظ حسنہ حصہ دوم ص159 تا 163- زبدۃ المحدثین حضرت ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ تعالی علیہ
bisma مصنف

Tuesday, November 25, 2014

درودتاج کے فضائل وفوائد



★---درودتاج کے فضائل وفوائد---★ 

★--کشائش روزگار کیلئے بعدنمازفجرسات مرتبه پڑھے ان شاءالله چندروزکی ورد سے روزی میں آسانی وفراخی هوگی اورعلامت تنگدستی دورهونگے اورهرقسم کے شرروضررونظرسے محفوظ ومامون رهے گا.

★--واسطے دفع آسیب وجن ووسوسه شیاطین ودفع سحر ودفع عینِ جن وبشر ودفع وبا وفساد ودفع امراض بدنی اورهرقسم کے ایسے امراض جن کوحکماء واطباءلاعلاج قراردے چکے هوں .ان شاءالله چندروزکی وردسے دورهوں گ
ے.

★--هرنمازکے بعدایک باروردرکھیں ان شاءالله بھت خیروبرکت هوگی.

bisma مصنف

سورۂ مزمل کی طاقت و تاثیر:




جب بھی ہم سورۂ مزمل کی طاقت اور تاثیر پر نظر ڈالتے ہیں ہم اتنا گہرائی میں چلے جاتے ہیں کہ سمندروں کے نیچے تہہ میں رہنے والے جنات پر بھی یہ سورۂ مزمل اثر کرتی ہے اور سورۂ مزمل ایسے جنات جو خزانوں پر قابض ہوتے ہیں یا نگران ہوتے ہیں ان کو دوست موافق اور مخلص بناتی ہے اور ان سے محبت اور پیار بڑھاتی ہے۔ سورۂ مزمل زندگی ہے‘ روشنی ہے‘ محبت ہے‘ پیار ہے‘ راستہ ہے‘ منزل ہے‘ راہ ہے‘ خوشی ہے‘ عظمت ہے‘ عروج ہے‘ کمال ہے‘ ولولہ ہے‘ فرشتوں کا ساتھ ہے‘ نیک جنات کی محبت اور ان کا ساتھ اللہ کی رضااور اللہ کے حبیبﷺ کی خوشنودی ہے

bisma مصنف

Monday, November 24, 2014

سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا وعدہ


سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا وعدہ

ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے سیدہ عائشہ صدیقہ، اُم حبیبہ، اُم سلمہ، سیدہ سودہ بنت زمعہ اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا تعلق خاندان قریش کے ساتھ تھا۔ باقی ازواج مطہرات کا تعلق مختلف قبائل سے تھا۔ روزانہ نمازِ عصر کے بعد رسول اقدسﷺ ازواج مطہرات کے پاس جا کر تھوڑی تھوڑی دیر بیٹھتے۔ ہر ایک حجرے میں قیام کا وقت مقرر تھا۔ ہر ایک زوجہ محترمہ کو انتظار ہوتا کہ آپﷺ تشریف لارہے ہیں۔

ایک مرتبہ چند دن آپ معمول سے قدرے زیادہ اُم المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے شدت سے محسوس کیا اور اس کا تذکرہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس کسی رشتہ دار نے شہد بھیجا تھا۔ وہ روزانہ آپﷺ کی خدمت میں شہد پیش کرتیں۔ چونکہ شہد نبی اکرمﷺ کی مرغوب غذا تھی، جسے نوش کرنے کی وجہ سے قدرے زیادہ وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے حجرے میں قیام فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو آپﷺ سے والہانہ محبت کی بنا پر یہ ناگوار گزرا لیکن بے پناہ ادب و احترام کی وجہ سے براہ راست اس طرزِعمل پر اظہارِ خیال کی جرأت نہ تھی۔ اس موضوع پر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے بات کی۔ باہمی مشورے سے یہ طے پایا کہ جب رسول اقدسﷺ باری باری ان کے حجرے میں تشریف لائیں تو ہم میں سے ہر ایک آپ سے یہ سوال ضرور کرے کہ یا رسول اللہﷺ آپ کے دہن مبارک سے کچھ غیرمانوس سی ہوا محسوس ہورہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیونکہ اس سے پہلے ہمیشہ آپ کے لب مبارک جب بھی ہلتے تو فضا معطر ہوجایا کرتی تھی۔ جب ایک ہی بات یکے بعد دیگرے تین ازواج مطہرات کی زبان سے سنی تو آپﷺ نے اسے شہد پینے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے آئندہ ہمیشہ کے لیے شہد نوشی کو اپنے لیے ممنوع قرار دے لیا۔ اگر یہ کسی عام انسان کا واقعہ ہوتا تو اسے کوئی اہمیت نہ دی جاتی لیکن چونکہ اس کا تعلق اس عظیم ہستی کے ساتھ تھا جس کی ہر بات اور ہر عمل شریعت کا قانون بن جاتا ہے۔ اس لیے اللہ سبحانہ و تعالٰی نے جھنجھوڑنے کا انداز اختیار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
''اے نبیﷺ تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے؟(کیااس لیے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے''۔
انہی دنوں میں رسول اقدسﷺ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے ایک راز کی بات کہی اور فرمایا کہ اسے افشا نہ کرنا، لیکن انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا تذکرہ کردیا۔ اللہ سبحانہ وتعالٰی نے وحی کے ذریعے آپﷺ کو آگاہ کردیا۔
9 ہجری تک سرزمین عرب کے بیشتر علاقے سلطنت مدینہ کے زیر نگین آچکے تھے۔ ہر علاقے سے مال و منال اور غلہ وافر مقدار میں مدینہ منورہ پہنچنے لگا۔ فراوانی و خوشحالی کے مناظر دیکھتے ہوئے ازواج مطہرات نے بھی گھریلو اخراجات میں اضافے کا مطالبہ کردیا۔ چونکہ ان میں سے بیشتر بڑے بڑے سرداران قبائل کی شہزادیاں تھیں جنہوں نے اپنے گھروں میں مال و دولت کی فراوانی دیکھی تھی اور نازونعم سے پرورش پائی تھی، اس لیے انہوں نے دولت کی بہتات دیکھ کر اپنے مصارف میں اضافے کا مطالبہ کردیا۔ اس صورتِ حال کا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا پتا چلا تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ انہوں نے اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کو سمجھایا کہ جو کچھ چاہیے مجھ سے کہو، رسول اقدسﷺ سے مصارف کا تقاضہ نہ کرنا۔ دیگر ازواج مطہرات کو بھی اس مطالبے سے باز رہنے کی تلقین کی۔ اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا اے عمر رضی اللہ عنہا آپ ہر معاملے میں دخل دیتے ہی تھے، اب آپ نے رسول اقدسﷺ کی بیویوں کے معاملے میں بھی دخل دینا شروع کردیا ہے۔ آپ یہ جواب سن کر خاموش ہوگئے۔
انہی دنوں رسول اللہﷺ گھوڑے سے گر کر قدرے زخمی بھی ہوئے تھے۔ آپﷺ نے اس ساری صورت حال کو پیشِنظر رکھتے ہوئے مکمل ایک ماہ تک ازواج مطہرات سے بالکل الگ تھلگ رہنے کا ارادہ کرلیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے ساتھ بالاخانہ میں تشریف لے گئے۔ مدینہ میں آباد منافقوں نے مشہور کردیا کہ رسول اللہﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہ تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہہ اس صورت حال سے بڑے پریشان تھے۔ لیکن حالِ دل پوچھنے کی کسی میں جرأت بھی نہ تھی۔ حضرب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک روز اجازت لے کرآپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کی یارسول اللہﷺ کیا آپ نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں۔ یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے۔ عرض کی یہ بشارت میں عام مسلمانوں کو بھی سنادوں؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں اجازت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسرت بھرے جذباتی انداز میں تمام لوگوں کو یہ اطلاع دی، جس سے مدینہ میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ انتیس روز بعد جب آپﷺ نیچے تشریف لائے تو پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آئے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا آج تو انتیسواں دن ہے، آپ نے مہینے کا اراد کیا تھا۔ آپﷺ نے بھی مسکراتے ہوئے فرمایا عائشہ مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اباجان سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ زندگی بھر ذاتی مصارف میں اضافے کا مطالبہ رسول اللہﷺ سے نہیں کریں گی اور پھر اس وعدے کو پوری زندگی نبھایا۔
ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اقدسﷺ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو ایک مرتبہ طلاق دے دی، پھر آپ نے رجوع کرلیا۔ مستدرک حاکم میں ابوبکر بن ابی خثیمہ نے حضرت انس بن مالک کے حوالے سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی۔ آپﷺ کے پاس جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے فرمایا: اے محمدﷺ آپ نے حفصہ کو طلاق دے دی ہے، وہ تو بڑی روزے دار اور عبادت گزار ہے اور وہ جنت میں آپ کی بیوی ہوگی۔ آپ نے یہ بات سنتے ہی رجوع کرلیا۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی۔ یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ کیا ہوگیا؟ غم میں ڈوب کر خودکلامی کے انداز میں کہنے لگے۔ ہائے افسوس اسلام کے لیے میری خدمات اور میری بیٹی کا یہ انجام،میرے اللہ یہ میرے ساتھ کیا ہوگیا؟ اگلی ہی صبح جبریل علیہ السلام رسولِ اقدسﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: یارسول اللہﷺ اللہ نے آپ کے نام یہ حکم دیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا لحاظ رکھتے ہوئے حفصہ رضی اللہ عنہا سے رجوع کرلیں۔ رسول اقدسﷺ نے اللہ تعالٰی کا حکم سنتے ہی رجوع کرلیا۔(سبحانہ اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم) اس طرح اللہ تعالٰی اپنے ماننے والوں کی مدد کیا کرتے ہیں۔ اُم المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے 41 ہجری کو 59 سال کی عمر میں داعئی اجل کو لبیک کہا۔ وفات کے وقت بھی ان کا روزہ تھا
bisma مصنف

محبوب رسولﷺ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ


محبوب رسولﷺ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ

11ہجری میں رحمت دو عالمﷺ نے اپنے وصال سے چند دن پہلے حدودِ شام کی طرف بھیجنے کے لیے ایک لشکر مرتب فرمایا۔ سات سو مجاہدین پر مشتمل اس لشکر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بن الجراح، حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص اور حضرت سعید رضی اللہ عنہ بن زید کے علاوہ اور بھی بہت سے عظیم المرتبت صحابہ کرام شامل تھے جو سب جذبہ شہادت سے سرشار تھے لیکن جب سروردوعالمﷺ نے اس لشکر کی قیادت کے لیے ایک اٹھارہ انیس سالہ نوجوان کو منتخب فرمایا تو کچھ لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ ایک نوعمر مجاہد کو مہاجرینِ اولین پر افسری کا استحقاق کیسے حاصل ہوگیا ہے۔ حضورﷺ کو ان کے استعجاب کی خبر ہوئی تو آپﷺ علالت طبع کے باوجود سر پر پٹی باندھے ہوئے کاشانہ اقدس سے باہر تشریف لائے اور منبر پر رونق افروز ہوکر ایک پُرجلال خطبہ دیا، جس میں فرمایا۔
''لوگوں تم نے اس مہم کے قائد کے بارے میں جو کچھ کہا ہے مجھ کو اس کی اطلاع مل گئی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے پہلے تم اس کے باپ کے بارے میں ایسی ہی باتیں کہہ چکے ہو۔ خدا کی قسم وہ بھی افسری کا مستحق تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی افسری کا مستحق ہے۔ وہ مجھ کو بہت محبوب تھا اور یہ بھی ہر خوش گمانی کے قابل ہے۔ اس لیے تم لوگ اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آیا کرو کہ تمہارے بہترین آدمیوں میں سے ہے''۔
حضورﷺ کے ارشاداتِ مقدسہ نے لوگوں کو مبہوت کردیا اور وہ بے اختیار پکار اٹھے'' یا رسول اللہﷺ ہم آپ کے فیصلے پر راضی ہیں اور اس نوجوان کی قیادت سب کو دل وجان سے منظور ہے''۔
یہ خوش بخت نوجوان جن کے بارے میں سید المرسلین فخرموجودات خیرالانامﷺ نے بھرے مجمع میں اعلان فرمایا کہ وہ افسری کے سزا اور ہر نیک گمانی کے لائق ایک بہترین مسلمان ہیں، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ بن زید رضی اللہ عنہ تھے۔
سیدنا حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ بن زید رضی اللہ عنہ کا شمار بڑے جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔ ان کی کنیت ابو محمد بھی تھی اور ابو زید بھی اور وہ بنوقضاعہ کی ایک شاخ بنو کلب سے تعلق رکھتے تھے۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ وہ واحد صحابہ ہیں جن کا نام قرآن پاک میں ہے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ سرور عالمﷺ کے آزاد کردہ غلام منہ بولے بیٹے اور سب سے پہلے ایمان لانے والی چار ہستیوں میں سے ایک تھے۔ ان کے جذبہ فدویت اور دوسرے اوصاف و محاسن کی بنا پر حضورﷺ ان کو اس قدر عزیز جانتے تے کہ''حبِ رسول اللہﷺ(رسول اللہﷺ کے محبوب) کے لقب سے مشہور ہوگئے تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی والدہ برکتہ رضی اللہ عنہا جو تاریخ میں اپنی کنیت ام یمن سے مشہور ہیں۔ رسول اکرمﷺ کے عہد طفلی میں آپﷺ کی کھلائی تھیں، اس لیے حضورﷺ ان کی بیحد تعظیم و تکریم فرماتے تھے اور ان کو''امی'' کہہ کر مخاطب فرمایا کرتے تھے۔
علامہ ابن سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ 7 ہجری بعد بعثت مکہ میں پیدا ہوئے۔ ماں باپ دونوں شمع رسالتﷺ کے پروانے تھے اور سیدالانامﷺ انہیں اپنے گھر کے افراد کی طرح سمجھتے تھے۔ اس لیے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے پہلے دن ہی سے اسلام کے بابرکت ماحول میں پرورش پائی۔ بقول حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ وہ اسلام کے سوا کچھ نہ جانتے تھے۔
bisma مصنف

اُمہ عمارہ رضی اللہ عنہا کمال صبرو تحمل


اُمہ عمارہ رضی اللہ عنہا کمال صبرو تحمل

حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے حبیب رضی اللہ عنہ کو رسول اقدسﷺ نے مسیلمہ بن کذاب کے پاس اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تاکہ اسے راہ راست پر لایا جاسکے۔ اس بدبخت نے سفارتی آداب کو پامال کرتے ہوئے حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرلیا اور ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور ان سے پوچھا:
''کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں''۔
پھر اس نے پوچھا:
''کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں''۔
انہوں نے کہا، میں بہرہ ہوں، میں سنتا نہیں۔ مسیلمہ بن کذاب نے یہ سوال بار بار کیا۔ ہر بار حضرت حبیب رضی اللہ عنہ نے یہی جواب دیا تو اس بدبخت نے ایک ایک عضو کاٹ کر حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔ حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کو جب بیٹے کی شہادت کی خبر ملی تو کمال صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ رسول اقدسﷺ نے دلاسہ دیتے ہوئے اس خاندان کے لیے خیرو برکت کی دعا کی۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں جب مسیلمہ بن کذاب سے نبردآزما ہونے کے لیے لشکر روانہ کیا تو اس میں حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً ساٹھ سال تھی اور ان کے بیٹے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی ہمراہ تھے۔ اس معرکے میں حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کا ایک بازو کٹ گیا۔ اس کے علاوہ تقریباً گیارہ زخم جسم پر لگے۔ مسیلمہ بن کذاب کو قتل کرنے والوں میں حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کے بیٹا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سپہ سالار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کے کٹے ہوئے ہاتھ کا علاج کرنے کے لیے تیل گرم کیا اور جلتے ہوئے تیل میں زخمی بازو کو داغ دیا، جس سے خون رک گیا۔ حضرت ام عمارہ عمارہ رضی اللہ عنہا کو اپنے بازو کے کٹ جانے کا اتنا غم نہیں تھا جتنی خوشی مسیلمہ بن کذاب کے واصل جہنم ہونے کی تھی۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک روز بہت عمدہ چادریں ان کے پاس آگئیں۔ ایک چادر بہت ہی عمدہ اور بڑے سائز کی تھی۔ ساتھیوںنے مشورہ دیا کہ یہ چادر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید کو دے دی جائے تو آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا یہ چادر اس خاتون کو دی جائے گی جو صفیہ رضی اللہ عنہا سے کہیں بہتر ہے۔ میں نے اس خاتون کی تعریف رسول اقدسﷺ کی زبان مبارک سے سنی۔ اس کے بعد یہ چادر حضرت ام عمارہ نسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیش کردی گئی۔ ایک روز حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے رسول اقدسﷺ کی خدمت میں عرض کی یا رسول اللہﷺ، قرآن حکیم میں اکثرو بیش تر مردوں کا ہی تذکرہ ہوتا ہے۔ عورتیں بے چاری محروم رہتی ہیں، تو یہ آیت نازل ہوئی:
''بلاشبہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، اللہ کے آگے جھکنے والے مرد اور اللہ کے آگے جھکنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقات دینے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور عورتیں اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر تیار کررکھا ہے۔''
حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا صحابیات میں اعلٰی درجے پر فائز تھیں۔ غزوہ احد میں جب گھمسان کی لڑائی ہورہی تھی، رسول اللہﷺ نے حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا، ان کے خاوند اور دونوں بیٹوں کی جاں نثار کا انداز دیکھتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا:
''اللہ تم پر رحم کرے اے خاندان''۔
ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی یا رسول اللہ دعا کیجئے کہ اللہ ہمیں جنت میں آپ کا ساتھ نصیب فرمادے تو آپﷺ نے یہ دعا کی:
''الٰہی ان سب کو جنب میں میرا رفیق بنادینا''۔
اللہ ان سے راضی اور وہ اپنے اللہ سے راضی
bisma مصنف

حضرت حارث رضی اللہ عنہ کی سعادت


حضرت حارث رضی اللہ عنہ کی سعادت

حضرت اُم ہشام رضی اللہ عنہا کے والد کا نام حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ تھا، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں علم وفضل اور مال و دولت کے کے اعتبار سے بلند مقام پر فائز تھے۔ جب رسول اقدسﷺ مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو میزبانی کا شرف حاصل ہوا تو پڑوس ہی میں حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی بھی رہائش تھی۔ ان کی دختر نیک اختر حضرت اُم ہشام رضی اللہ عنہا کو بارہا دفعہ کھانا تیار کرکے رسول اقدسﷺ کی خدمت میں پیش کرنے کا اتفاق ہوا۔ تقریباً نو ماہ تک رسول اللہﷺ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر جلوہ افروز رہے۔ جب بھی رسول اللہﷺ کو نئے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی بنا پر نئے گھر کی ضرورت محسوس ہوتی تو حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ اپنا گھر رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کرکے خود دوسرے گھر میں منتقل ہوجاتے، ان کی اس خدمت گزاری سے متاثر ہوکر رسول اللہﷺ نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
''مجھے تو اب حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے شرم محسوس ہونے لگی ہے کہ وہ ہمارے لیے اس قدر اپنے گھروں کو بدلتے ہیں۔''
علامہ یاقوت حموی اپنی معروف کتاب معجم البلدان میں لکھتے ہیں کہ حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ وہ پہلے صحابی ہیں جس نے رسول اقدسﷺ کی خدمت میں اپنے بیشتر گھر پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ اپنی والدہ محترمہ کے غایت درجہ فرماں بردار تھے۔ اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے انہیں بلند مقام پر فائز کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اقدسﷺ نے فرمایا۔
''میں جنت میں داخل ہوا تو تلاوت قرآن کی آواز سنی میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا یہ بلند مقام تمہیں اس لیے ملا کہ تم اپنی والدہ کے فرمانبردار ہو۔"
حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کو دو مرتبہ حضرت جبریل علیہ السلام کو دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے جبریل علیہ السلام کو دو مرتبہ بچشم خود دیکھا۔ ایک دفعہ جنت البقیع میں جب رسول اللہﷺ بنو قریظہ سے بنردآزما ہونے کے لیے نکلے۔ اس وقت جبریل علیہ السلام وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں تھے۔ ایک دفعہ غزوہ حنین میں جب کہ حضرت جبریل علیہ السلام رسول اقدسﷺ کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ میں وہاں جب خاموشی سے گزرا تو جبریل علیہ السلام نے پوچھا محمد یہ کون ہے؟
آپﷺ نے فرمایا: یہ حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہے۔ تو جبریل علیہ السلام نے کہا یہ ان سو خوش نصیبوں میں سے ہیں، جن کو جنتی رزق سے شاد کام ہونے کا اعلان اللہ رب العزت نے کیا۔ آگر یہ آج مجھے سلام کہتے میں ان کے سلام کا جواب دیتا۔ اس عظیم المرتبت صحابی کو غزوہ بدر میں شریک ہونے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت اُم ہشام رضی اللہ عنہا نجیب الطرافین تھیں۔ ان کی والدہ ماجدہ حضرت اُم خالد بنت خالد بن یعیش قبیلہ بنو مالک میں سے تھیں۔ا سے رسول اللہﷺ کی بیعت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کی شادی حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ جس سے عبداللہ، عبدالرحمٰن، سودہ، عمرۃ اور اُم ہشام پیدا ہوئے اور گھر کے آنگن میں چہل پہل ہوگئی۔ ان سب بیٹے بیٹیوں نے اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔ رسول اقدسﷺ کی خدمت گزاری میں اس خاندان نے تاریخی کارنامے سرانجام دیے۔ حضرت اُم ہشام رضی اللہ عنہا کو کئی مرتبہ رسول اللہﷺ کے گھر جانے کی سعادت حاصل ہوئی اور ازواج مطہرات کو بہت قریب سے دیکھنے کا سنہری موقع میسرآیا۔ ازواج مطہرات کے اخلاق کریمانہ سے فیض یاب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔
bisma مصنف

سورہ اخلاص


سورہ اخلاص


حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص سورۃ قل ہو اللہ احد دس بار پڑھے تو اس کی وجہ سے جنت میں اس کے لئے ایک محل بنایا جاتا ہے جو شخص اس کو بیس مرتبہ تو اس کی وجہ سے جنت میں اس کے لئے دو محل بنائے جاتے ہیں اور جو شخص اس کو تیس مرتبہ پڑھے تو اس کی وجہ سے جنت میں اس کے لئے تین محل بنائے جاتے ہیں۔ (لسان ببوت سے یہ بشارت سن کر) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ خدا کی قسم! اے اللہ کے رسول پھر تو اب ہم (جنت میں) اپنے بہت زیادہ محل بنا لیں گے (یعنی جب اس سورت کو پڑھنے کی یہ برکت اور اس کا یہ ثواب ہے تو پھر ہم اب اس سورت کو بہت زیادہ پڑھیں گے تاکہ اس کی وجہ سے جنت میں ہمارے لئے بہت زیادہ محل بنیں) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس سے بھی بہت زیادہ فراخ ہے۔ (یعنی اس سورت کی فضیلت اور اس کا ثواب بہت عظیم اور بہت وسیع ہے لہٰذا اس بشارت پر تعجب نہ کرو بلکہ اس کے حصول کی کوشش کرو اور اس کی طرف راغب ہو)۔ دارمی

مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 695
48 - فضائل قرآن کا بیان : (109)
قل ہو اللہ احد پڑھنے کی تاثیر‬ کرنا
bisma مصنف

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ


‫جب اہل یمن نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ آپ ایک ایسا آدمی بھیج دیجئے جو صرف امیر ہی نہ ہو، بلکہ معلّم بھی ہو، تو اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مبارک معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ پر پڑی، چنانچہ آپ نے ان کو اشارہ کرکے بلایا اور کہا کہ اے معاذ! تم یمن چلے جاؤ تمہاری وہاں ضرورت ہے، پھر آپ نے تبلیغ سے متعلق کچھ نصیحتیں فرمائی اور ان کو وہاں کا گورنر مقرر فرما دیا اور کہا کہ اے معاذ!
واپسی میں شاید تم مجھ سے نہ مل سکوگے، یہ سننا تھا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے آنسو بہہ پڑے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی آنسو شدت محبت کی وجہ سے بہہ پڑے،

پھر جب روانہ ہونے لگے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل رہے تھے اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سواری پر تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ساتھ چل کر نصیحت بلکہ وصیت فرمارہے تھے، اے معاذ! لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا، مشکلات پیدا نہ کرنا، انہیں خوشی ومسرت کا پیغام سنانا، ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے انہیں دین سے نفرت ہوجائے۔ اس سفر کا منظر بھی عجیب تھا کہ محبوب پیدل چل رہے تھے اور محب سوار، جی ہاں!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیدل تھے اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار تھے۔اس وقت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کتنے خوش تھے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اگر مجھے فیصلہ کرنے کے لیے قرآن وسنت میں کوئی چیز نہ ملے تو اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جواب سے اتنی خوشی ہوئی تھی، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرستادہ کو اس چیز کی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول راضی ہے۔

پھراس وقت وہ حالت بھی عجیب تھی، کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے معاذ! ہوسکتا ہے آج کے بعد تم مجھ سے پھر نہ مل سکو، شاید واپسی میں تمہارا گذر میری مسجد اور قبر کے پاس ہی سے ہوگا۔

یہ سننا تھا کہ اس عاشق صادق کے پاؤں سے زمین نکل گئی اور زار وقطار رونے لگے،چنانچہ یہی ہوا کہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یمن سے واپس آئے تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرماچکے تھے 
(حیات الصحابہ)
bisma مصنف

زلزلے کیوں آتے ہیں؟


زلزلے کیوں آتے ہیں؟

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت کی جو بیشمار نشانیاں بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں زلزلوں کی کثرت ہوگی.کسی زمانے میں جب کہیں سے یہ اطلاعّ آتی تھی کہ فلاں جگہ زلزلہ آیا ہے اور اتنے لوگ اسکے نتیجے میں لقمہ اجل بن گئے ہیں تو دیندار اور خوف خدا رکھنے والے لوگ توبہ استغفار کرنے لگتے تھے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی رو سے یہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے. مگر آجکل روزانہ ہی کہیں نہ کہیں زلزلے نمودار ہو رہے ہیں اور انکے نتیجے میں جانی اور مالی خسائروقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں. مگر لوگوں کے دلوں میں اس بات کا خوف جانگزین نہیں ہوتا کہ زلزلوں کا اس شدت کے ساتھ آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے بلکہ دلوں پر خوف کی جگہ ایک بے حسی کی کیفیت طاری ہو چکی ہے اور نصیحت حاصل کرنے کی بجائے تجاہل سے کام لیا جانے لگا ہے. قرآن مجید میں اللہ تعالی نے سورۃالزلزال میں وقوع قیامت کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے کہ:جب زمیں اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائیگی: (سورۃ الزلزال۔ آیۃ ۱) مفسرین اس آیت سے یہ معنی لیتے ہیں کہ اس وقت زمین کا کوئی مخصوص حصہ نہیں بلکہ پورے کا پورا کرہ ارض ہلا دیا جائیگا جسکے نتیجے میں دنیا کا وجود ختم ہو جائیگا. مگر اس عظیم زلزلے کے واقع ہو نے سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق زمین کے مختلف حصوں پر زلزلوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجائیگا . یہ سب کچھ اللہ کی مشیعت اور حکم سے ہوگا مگر چونکہ ہر کام کے ہونے کی کوئی منطقی وجہ اور اسباب ہوتے ہیں اسی طرح سائنسدانوں نے زلزلوں کے وقوع پذیر ہونے کے اسباب بھی تلاش کر لئے ہیں. جس طرح بارش اللہ کے حکم سے ہی برستی ہے اور بادل رب کے حکم سے سمندروں سے پانی لے کر جہاں اللہ کا حکم ہوتاہے وہاں برستے ہیں اور اس طویل عمل کو سائنسدانوں نے مختلف تماثیل کے زریعے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سورج کی تمازت سے سمندر کا پانی بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اور کس طرح وہ بادلوں کی شکل اختیار کرتا ہے اور کیسے بارش برستی ہے. پہلے وقتوں میں جب سائنس اور ٹکنالوجی کا وجود نہیں تھااور تحقیق کے باب نہیں کھلے تھے تو مختلف ادوار میں مختلف اقوام زلزلوں سے متعلق عجیب و غریب نظریات رکھتی تھی.کسی قوم کا یہ نظریہ تھا کہ ایک طویل وعریض چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے اور اسکی حرکت کرنے کی وجہ سے زمین ہلتی ہے.مذہبی عقیدے کی حامل قوم کا یہ خیال تھا کہ خدا اپنے نافرمان بندوں کوزمین ہلا کر ڈراتا ہے. اسی طرح ہندوں دیو مالائی تصور یہ تھا کہ زمین کو ایک گائے نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور جب وہ تھک کر سینگ بدلتی ہے تو اسکے نتیجے میں زمین ہلتی ہے جبکہ ارسطو اور افلاطون کے نظریات کچھ ملتے جلتے تھے جنکے مطابق زمین کی تہوں میں موجو د ہوا جب گرم ہوکر زمین کے پرتوں کو توڑ کر باہر آنے کی کوشش کرتی ہے توزلزلے آتے ہیں. سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ علمی تحقیق کے دروازے کھلتے چلے گئے اوراسطرح ہر نئے سا نحے کے بعد اسکے اسباب کے بارے میں جاننے کی جستجونے پرانے نظریات کی نفی کردی ہے.یوں تو بہت سی قدرتی آفات کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے پیشگی اطلا ع فراہم ہوجاتی ہو او ر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باعث کافی بڑے جانی و مالی نقصانات سے بچا جاسکتا ہے.مثلا سمندر میں بننے والے خطرناک طوفانوں ، انکی شدت اور انکے زمین سے ٹکرانے کی مدت کا تعین سٹلائیٹ کے زریعے کیا جاسکتا ہے اور اس سے بچاؤ کی تدابیر بروقت اختیار کی جاسکتی ہیں مگر زلزلے کی آمد نہایت خاموشی سے ہوتی ہے اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی ایک داستان رقم کرکے جاچکا ہوتا ہے. بیشک ایسے آلات ایجاد ہوچکے ہیں جو زلزلے گزرنے کے بعد انکی شدت، انکے مرکزاورآفٹر شاکس کے بارے میں معلومات فراہم کردیتے ہیں؛ ماہرین ارضیات نے زلزلوں کی دو بنیادی وجوہات بیان کی ہیں ایک وجہ زیر زمیں پلیٹوں (فالٹس) میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ہے اور دوسری آتش فشاں کا پھٹنا بتایا گیا ہے. زمین کی بیرونی سطح کے اندر مختلف گہرائیوں میں زمینی پلیٹیں ہوتی ہیں جنہیں ٹیکٹونک پلیٹس کہتے ہیں۔ ان پلیٹوں کے نیچے ایک پگھلا ہوامادہ جسے میگما کہتے ہیں موجود ہوتا ہے .میگما کی حرارت کی زیادتی کے باعث زمین کی اندرونی سطح میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے جس سے ان پلیٹوں میں حرکت پیداہوتی ہے اور وہ شدید ٹوٹ پھوت کا شکار ہوجاتی ہیں.ٹوٹنے کے بعد پلیٹوں کا کچھ حصہ میگما میں دہنس جاتا ہو اور کچھ اوپر کو ابھر جاتا ہے جس سے زمیں پر بسنے والی مخلوق سطح پر ارتعاش محسوس کرتی ہے. زلزلے کی شدت اور دورانیہ کا انحصار میگما کی حرارت اور اسکے نتیجے میں پلیٹوں میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل پر منحصر ہے اسی طرح جب آ تش فشا پھٹتے ہیں تو لاوا پوری شدت سے زمین کی گہرائیوں سے سطح زمیں کی بیرونی تہوں کو پھاڑتا ہوخارج ہوتا ہے جس سے زمیں کی اندرونی پلیٹوں میں شدید قسم کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔یہ لہریں زیر زمین تین سے پندرہ کیلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے سفر کرتی ہیں اور ماہیت کے حساب سے چار اقسام میں انکی درجہ بندی کی گئی ہے. دو لہریں زمیں کی سطح کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں جبکہ دیگر دو لہریں جن میں سے ایک پرائمری ویو اور دوسری سیکنڈری ویو ہے زیر زمین سفر کرتی ہیں.پرائمری لہریں آواز کی لہروں کی مانند سفرکرتی ہوئی زیر زمین چٹانوں اور مائعات سے گزر جاتی ہیں جبکہ سیکنڈری ویوز کی رفتار پرائمری ویوز کے مقابلے میں کم ہوتی ہے اور وہ صرف زیر زمین چٹانوں سے گزر سکتی ہے . سیکنڈری ویو ززمینی مائعات میں بے اثر ہوتی ہیں مگر وہ جب چٹانوں سے گزرتی ہے توایل ویوز بنکر ایپی سینٹر یعنی مرکز کو متحرک کردیتی ہیں اور زلزلے کا سبب بنتی ہیں. ایل ویوز جتنی شدید ہونگی اتنی ہی شدت کا زلزلہ زمین پر محسوس ہوگا. زلزلے اگر زیر سمندر آتے ہیں تو انکی قوت سے پانی میں شدید تلاتم او ر لہروں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور کافی طاقتور اور اونچی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو سطح سمندر پر پانچ سو سے ایک ہزار کیلومیٹر کی رفتار سے بغیر اپنی قوت اور رفتار توڑے ہزاروں میل دور خشکی تک پہنچ کر ناقابل یقین تباہی پھیلاتی ہے جسکی مثال ۲۰۰۴ ء کے انڈونیشیا کے زلزلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سونامی ہے جس کی لہروں نے ہندوستان اور سری لنکا جیسے دور دراز ملکوں کے ساحلی علاقوں میں شدید تباہی پھیلائی تھی جس کی گونج آج بھی متاثرہ علاقوں میں سنائی دیتی ہے. اورا ب اس سے کچھ کمتر درجے کے مگر جاپان کی تاریخ کے سب سے بڑے زلزلے کابھی ذکر کر لیا جائے جو ۱۱ مارچ کوجاپان کے شمال مشرق میں تباہی اوربربادی کی نئی داستانیں رقم کر گیا اور جس نے۲۰۰۴ء میں آنے والے انڈونیشیا کے زلزلے اور سونامی کی یاد تازہ کردی ہے .۹.۸ (آٹھ اعشاریہ نو ) قوت کے اس زلزلے نے جسکا مرکز ٹوکیو سے ۳۷۰ کیلومیٹر دور بحر الکاہل میں تھاجاپان کے متعلقہ اداروں کو سونامی وارننگ جاری کرنے پر مجبو ر کردیا.زلزلے اور اسکے نتیجے میں آنے والے سونامی نے جاپان کے شمال مشرقی حصے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی ہے. ابتک کی غیر متصدقہ اطلاعات کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور سینکڑوں افرادلاپتہ ہیں.جبکہ مالی نقصانات کا تخمینہ اس مرحلے پر لگانا ایک مشکل امر ہے. زلزلے کے نتیجے میں ایک ایٹمی ریکٹر میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں قریبا ۴۰ (چالیس ) افراد ہلاک ہوئے اور کولنگ سسٹم کے کام نہ کرے کی وجہ سے تابکاری کے اخراج کا خطرہ بڑھ گیا ہے.زلزلے کے بعد متاثرہ علاقوں میں واقع تمام ۱ ۱ ایٹمی ریکٹر زفوری طور پر بند کر دئے گئے ہیں تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے جبکہ کسی امکانی خطرے کے پیش نظر ریکٹر کے قرب وجوار میں رہنے والے ہزاروں لوگوں کا انخلاء عمل میں لایا جارہا ہے. جاپان کے انسٹیٹیوٹ آف انرجی اکنامکس کے نیوکلیئر انرجی گروپ کی لیڈر ٹوموکو موراکامی کی کہنا ہے کہ زلزلے کے نتیجے میں تابکاری کے فوری اخراج کا کوئی خدشہ نہیں ہے اگر فیول راڈز منکشف بھی ہوجاتے ہیں تب بھی و ہ فوری طور پر نہیں پگھلیں گے. انکے کہنے کے مطابق اگر فیول راڈز پگھل بھی گئے اور ریکٹر کا اندرونی دباؤ بڑھ بھی گیا تب بھی اس وقت تک تابکاری کے اخراج کا کوئی خطرہ نہیں ہے جبتک ریکٹر کے کنٹینرز درست کام کار رہے ہیں. دوسری جانب کارنیگی وقف برائے بین الاقوامی امن کے جوہری توانائی کے ایک ماہرمارک ہبس نے زلزلے کے بعد جاپان میں ایٹمی ریکٹروں کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ حالات قابو سے باہر ہونے کی صورت میں سنگین موڑ اختیار کر سکتے ہیں.ایک یا ایک سے زیادہ ایمرجنسی ڈیزل جنریٹرز جو کہ ریکٹر کے کولنگ سسٹم کو بجلی سپلائی کرتے ہیں انکے کام نہ کرنے کی غیر مصدقہ اطلاعات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ کوئی ہنسی مذاق کا معاملہ نہیں ہے بلکہ جاپان کے لئے یہ تشویش کی بات ہے کہ ریکٹرزکے کولنگ سسٹم کی فعالیت کو برقرار رکھتے ہوئے ریکٹر کی حرارت کو اعتدال پر رکھا جائے اور اگر ایسا نہیں ہوتا اوربڑھتی ہوئی حرارت پر قابو نہیں پایا جاتا تو بنیادی ایٹمی ایندھن حرارت کی زیادتی کے باعث پگھل کر نقصان کا باعث بن سکتے ہیں جسکے نتیجے میں تابکاری کے اخراج کو نظر انداز نہیں جاسکتا. اس بات کی بھی پیشنگوئی ہے کہ آفٹرشاکس کا سلسلہ ایک ماہ تک جاری رہنے کا امکان ہے اور سات درجے تک کے جھٹکے جاپان کے شہروں خصوصا شمال مشرقی حصے کو جھنجھوڑتے رہیں گے جس کے نتیجے میں مزید کتنی تباہی جاپان کے اور جاپانیوں کے مقدر میں لکھی جاچکی ہے یہ توآنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے اور ریکٹر کا معاملہ اگر قابو سے باہر ہوگیا اور تابکاری پھیلی تو اس کے نتیجے میں کتنے لوگ متاثر ہوتے ہیں یہ بھی غیر مبہم ہے . علاوہ ازیں سونامی کہاں کہاں تک تباہی کی علامت بن کر پہنچتا ہے اور اسکے نتیجے میں دنیا کے کتنے ملکوں میں مزید کتنا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے یہ امر بھی وقت کی مٹھی میں بند ہے. ہم صرف یہ دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ انسانوں کو مزید ہر قسم کے نقصانات سے محفوظ رکھے آمین.
bisma مصنف

Sunday, November 23, 2014

سولہ بیماریاں اور آزمودہ بوٹی


سولہ بیماریاں اور آزمودہ بوٹی 


برصغیر کی معروف نباتی دوا انبرباریس کا پھل زرشک طب مشرق کی معروف عام اور مقبول دوا ہے جو اسہال اور پیچش میں استعمال ہونے والی ادویہ میں سرفہرست ہے۔ اس کے دیگر علاقائی نام یوں ہیں۔ اسے انگریزی زبان میں انڈین بربیری، اردو میں رسوت، ہندی میں دارہلد، عربی میں انبرباریس اور فارسی میں زرشک کہتے ہیں جبکہ اس کا نباتی نام Berberis Vulggaris ہے۔ اس کا تعلق بربیری ڈیسی خاندانسے ہے۔ یہ پودا دنیا کے بیشتر ممالک مثلاً ہندوستان، نیپال، بھوٹان، سری لنکا، افغانستان، جاپان اور برطانیہ میں پایا جاتا ہے جبکہ ہمارے اپنے ملک میں دیر، سوات، گلگت، کاغان، پونچھ، مری اور کشمیر کے علاوہ دیگر پہاڑی علاقوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔ یہ ایک خار دار درخت کا پھل ہے جو کہ کچا سبز رنگ کا جبکہ پک کر سرخ اور پرانا ہونے پر سیاہ ہو جاتا ہے۔ اس کا ذائقہ کھٹ مٹھا ہوتا ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں۔ ایک پہاڑی جو دراز قد اور سیاہ ہوتی ہے جبکہ دوسری قسم کا پھل گول اور سرخ ہوتا ہے۔ بعض میں گٹھلی ہوتی ہے جبکہ بعض میں نہیں ہوتی ۔اس کا درخت ایک سے چار گز تک بلند ہوتا ہے۔ اس کے پھول سفید زردی مائل جبکہ پتے چنبیلی کے پتوں جیسے ہوتے ہیں۔ جگر اور پتہ کے امراض میں اس کے فوائد مسلم ہیں۔ معدہ اور امعاءکی اصلاح کے علاوہ بھی اس کے ادویاتی فوائد ہیں۔ کئی امراض میں تنہا اور بعض میں دیگر نباتی ادویہ کے ساتھ مرکب کر کے اطباءاسے صدیوں سے استعمال کروا رہے ہیں۔ جدید تحقیقات کے مطابق اسے دافع جراثیم، التہاب، پھپھوند، اسہال وپیچش، تشنج، ملیریا، فشار الدم قوی اور سرطان قرار دیا گیا ہے۔ اسے سفید خلیات (W.B.) میں اضافہ کرنے والی نباتی ادویہ میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس میں کئی الکائیڈز پائے جاتے ہیں جن میں جوہر موثرہ بربرین بھی ہے صفراوی مادہ کی امعاءپر ترواش میں اضافہ کرتی ہے۔ زرشک کے الکائیڈز نہایت قوی دافع جراثیم اثرات رکھتے ہیں۔ پتے کی سوزش اور درد میں یہ بہت موثر ہیں۔ زرشک کی جڑ اور پتوں سے ٹے نین اور بربیرین حاصل ہوتی ہے۔ معلومات کے مطابق زر شک دوسرے درجے میں خشک جبکہ دار ہلد (زر شک کے پودے کا تنا) پہلے درجے میں سرد خشک ہے۔ اس کا عصارہ (رسوت) دوسرے درجہ میں سرد اور تیسرے درجہ میں خشک ہے جبکہ بعض کے نزدیک یہ معتدل ہے۔ زرشک، جگر، دل اور معدہ کو تقویت بخشتی ہے۔ یہ جگر کے بعض امراض مثلاً یرقان، پتے میں پتھری اور صفراوی بخاروں میں بھی مفید ہے۔ بواسیر میں فائدہ دیتی ہے اپنے اثرات کے باعث کثرت حیض میں مفید ہے۔ صفراوی دستوں میں اس کے شفائی اثرات بہت زیادہ ہیں بڑھی ہوئی تلی میں مفیدہے۔ زرشک کے پودے کی چھال کے جوشاندے سے کلی کرنا‘ قلاع (منہ آنا) میں مفید ہے۔ بیماری کے بعد ہونے والی کمزوری میں مفید ثابت ہوتی ہے۔ ہومیو پیتھی میں استعمال ہوتی ہے اور درج ذیل عوارضات میں دی جاتی ہے۔ کمزوری کی وجہ سے سوئیاں چبھنا، معدہ کا اپھارہ، جگر اور پتہ کا درد، جوڑوں میں سوزش وغیرہ۔ زرشک کو پیٹ کی گیس، قولنج، کھانسی اور بلغمی مزاج کے لوگ استعمال نہ کریں کیونکہ ان میں مضر اثرات سامنے آسکتے ہیں۔ زرشک 6گرام تک استعمال کی جا سکتی ہے۔ طب مشرق کے مرکبات میں حب سیاہ چشم، حب رسوت، حب بواسیر، جوارش زرشک، دواءالمسک معتدل سادہ اور دواءالمسک معتدل بااضافہ جواہرات کا اہم جزو ہے۔ ضعف بصارت کیلئے میرے استاد محترم شہید پاکستان حکیم حافظ محمد سعیدرحمتہ اللہ علیہ مطب فرما رہے تھے۔ ایک مریض نے بینائی تیز کرنے کے لئے مشورہ چاہا، حکیم صاحب نے ایک لمحہ توقف کے بعد اسے روزانہ صبح زرشک 6گرام چبا لینے کی ہدایت فرمائی۔ راقم نے ان سے استفسار کیا کہ زرشک کا بینائی سے کیا تعلق؟ حکیم سعید رحمتہ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ عقاب زرشک کھاتا ہے اوراسکی نظر بہت تیز ہے۔ اس لئے میرے ذہن میں یہ آیا۔ وہ مریض دو ماہ بعد دوبارہ مطب میں آیا اور بتایا کہ مجھے اس سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ جس کے بعد میں نے بہت سے مریضوں کو یہ تدبیر بتائی اوراکثر نے مفید اثرات کا جواب دیا ہے۔
bisma مصنف

روزی میں برکت اور زیادتی کیلئے:


نماز عشاءکی سنت نفل پڑھ کر وتر سے پہلے اول درود شریف گیارہ بار پڑھیں پھر چودہ سو بار یَاوَھَّابُ پڑھیں۔ آخر میں گیارہ بار درود شریف پڑھ کر دعا کریں۔ اس عمل کی برکت سے قرض سے نجات حاصل ہوگی۔ آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ گھر میں خیروبرکت ہوگی
bisma مصنف

اردو وظائف


یَافَتَّاحُ یَابَاسِطُ کھلا ہر حالت میں پاک ناپاک سارا دن پڑھیں۔ غربت‘ قرضہ‘ تنگدستی اور قحط کیلئے لاجواب ہے یہ لفظ پڑھے ہر طرف خوشحالی آگئی۔ بس شرط یہ ہے کہ چند ماہ یہ ضرور پڑھیں۔
bisma مصنف

Wednesday, November 19, 2014

صلہ رحمی


صلہ رحمی

-----------
ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ:
"صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو کسی بدلے میں ایسا کرے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ اگر تم اس سے قطع تعلق بھی کر لو تو وہ صلہ رحمی برقرار رکھے۔"
bisma مصنف

پیارے نبی ﷺ کی پیاری مسکراہٹیں


پیارے نبی ﷺ کی پیاری مسکراہٹیں

----------------------------------------
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ایک دن میں نے رسول اللہ ﷺ کے لئے حریرہ پکایا، اس وقت آپ ﷺ میرے اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے درمیاں تشریف فرما تھے۔ میں نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ: "تم بھی کھاو"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے انکار کیا۔ میں نے پھر کہا کہ کھاو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے پھر انکا کیا۔ تب میں نے کہا:
"تمھیں کھانا پڑے گا، اگر نہیں کھاو گی تو میں حریرہ تمہارے چہرے پر مل دوں گی۔"
انہوں نے تیسری بار بھی کھانے سے انکار کیا تو میں نے حریرے میں ہاتھ ڈال کر ہاتھ بھر لیا اور ان کے چہرے پر مل دیا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور ﷺ نے تبسم فرمایا اور اشارے سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم بھی (حضرت) عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے منہ پر حریرہ مل دو،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے میرے منہ پر بھی حریرہ مل دیا۔
اتنے میں دروازے کے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور آواز دی: "اے عبداللہ!۔۔۔۔۔۔۔۔اے عبداللہ!"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ ﷺ نے خیال کیا کہ شائد حضرت عمر رضی اللہ عنہ اندر تشریف لائیں گے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:
"دونوں کھڑی ہو جاو اور اپنے منہ دھو لو۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"اس وقت سے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ڈرنے لگی، کیونکہ رسول اللہ ﷺ بھی ن کا لحاظ فرماتے تھے"۔(ورنہ آپ ہم دونوں سے جلدی جلدی منہ دھونے کے لئے نہ فرماتے اور اس حالت سے مزید لطف اُٹھاتے۔)
(بحوالہ - عوارف المعارف از شیخ شہاب الدین عمر ابو حفص سہررودی رحمتہ اللہ علیہ)
bisma مصنف

Tuesday, November 18, 2014

سورہ آل عمران


جس دن ہر جان نے بھلا کام کیا، حاضر پائے گی، اور جو بُرا کام کیا، امید کرے گی کہ کاش مجھ میں اور اس میں دور کا فاصلہ ہوتا، اور اللہ تمھیں عذاب سے ڈراتا ہے، اور اللہ بندوں پر مہربان ہےo

سورہ آل عمران، آیت ۳۰
bisma مصنف

Monday, November 17, 2014

فضائل قرآن



bisma مصنف

صدقہ کی اہمیت



bisma مصنف

اچھے بول



bisma مصنف

ویڈیو

Event more news