Tuesday, December 23, 2014

رزق میں برکت اورمال کے لیے





★رزق میں برکت اورمال کے لیے★

★وسعت رزق اورهرشرسے حفاظت کے لیے فجر اورمغرب کے بعدایک سوبار «يَابَاسِطُ يَاحَفِيْظُ»كاوردکیجئے اول وآخرتین تین باردرودشریف.
★رزق کی بارش:-شیخ ابوالحسن الشاذلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رزق کی بارش چاہتے ہوتوسورہ فلق ہمیشہ پڑھو.
★يَاوَاسِعُ کابکثرت ورد غنائے ظاہری وباطنی عطاكريگا
★سورہ یس روزانہ بعدنمازصبح ایک بار
★سورہ مزمل روزانہ سات مرتبہ تلاوت کیجئے.
★کثرت کے ساتھ درودشریف کاوردکیجئے.
★یاباسط 72مرتبہ ہرنمازکے بعد
★سورہ واقعہ بعدنماز مغرب -
★یاوھاب1414 مرتبہ بعدنمازعشاء 
★هروظیفه سے پهلے درودشریف لازم هے. 
bisma مصنف

1000باردرودکی برکت






حضرت علی خواص رضی الله تعالی عنه کاارشادگرامی هے 



فرمایاجس کسی کوکوئی حاجت درپیش هوتووه هزارمرتبه پوری توجه کے ساتھ نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم پردرودپاک پڑھ کرالله تعالی سے دعامانگے ان شاء الله حاجت پوری هوگی.
ازقلم:-ابوطیبه مفتی محمدکامران المدنی الرفاعی.
bisma مصنف

Sunday, December 21, 2014

AYE MERY KAREEM KARAM KARNA..MUST LISTEN


bisma مصنف

درود شریف اور ذکرالٰہی


درود شریف اور ذکرالٰہی
عربی لغت میں”صدر“ سینے کو کہتے ہیں اور سینے کی اہمیت دل کی وجہ سے ہے قرآن مجید کا موضوع انسان ہے اور انسانی وجود میں سب سے اہم قلب یعنی دل ہےدل کی اہمیت یہ ہےکہ قرآن مجید نےکہیں بھی دماغ کا لفظ استعمال نہیں کیا
پروفیسر عفت خالد:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ترجمہ: ” اورجس کے لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے تو اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے کہ وہ گمراہ ہو اس کا سینہ تنگ کر دیتا ہے (انعام126.)
عربی لغت میں”صدر“ سینے کو کہتے ہیں اور سینے کی اہمیت دل کی وجہ سے ہے قرآن مجید کا موضوع انسان ہے اور انسانی وجود میں سب سے اہم قلب یعنی دل ہے دل کی اہمیت یہ ہے کہ قرآن مجید نے کہیں بھی دماغ کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ہدایت وگمراہی‘ عقل وشعور ، اسلام اور ایمان کاتعلق دل سے قائم کیا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا”انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہے تو سارا جسم درست اور اگر وہ خراب ہے تو سارا جسم خراب، آگاہ رہو وہ دل ہے“ قرآن مجید کے مطابق معنوی لحاظ سے دل کی دو قسمیں ہیں۔.1 ہدایت یافتہ اور روشن و منوردل ترجمہ ”پس جس کا سینہ اللہ تعالی نے کھول دیا وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پرہو جاتا ہے۔غافل وتاریک دل کیلئے ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: ”تباہی ہے سخت دلوں کے لئے جواللہ کے ذکر سے غافل ہیں“ قرآن مجید کے مطابق دلوں کا اطمینان صرف اللہ تعالی کے ذکر سے ہی ممکن ہے فرمایا گیا ترجمہ ”بے شک اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو سکون واطمینان ملتا ہے“
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کونسا ذکر کرنا پسند فرماتا ہے خیال رہے کہ اس کا جواب سورة الاخراب کی 56 نمبر آیت میں موجود ہے۔ترجمہ: ”بے شک اللہ تعالی اوراس کے فرشتے اس نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی مل کرآپﷺ پردرود بھیجو اورسلام بھیجو نہایت عاجزی کے ساتھ“۔ یہ آیت مبارکہ ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ”جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپﷺ کاچہرہ مبارک گلنار ہوگیا اور فرمایا۔
”مجھے مبارک باد پیش کرو کہ آج وہ آیت نازل ہوئی جو دنیا اور مافیھا کی ہر چیز سے بہتر ہے“ اس پر میں نے کہا ”اے اللہ کے رسولﷺ آپ کو یہ نعمت مبارک ہو“ ۔ صحیح بخاری شریف میں ابوالعالیہ سے روایت ہے کہ جب اس بابرکت عمل کی نسبت اللہ تعالی سے کی جائے تو صلوة کامطلب ہے کہ اللہ تعالی فرشتوں کی بھری محفل میں اپنے محبوب محمدﷺ کی تعریف وثناء کرتا ہے۔
علامہ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اللہ تعالی کی طرف سے صلوة کا مطلب دعائے خیر اور امت کی طرف سے اس کا مطلب درود شریف‘ دعا اور آپﷺ کی تعظیم وتکریم کرنا ہے“۔مذکورہ بالا آیت تین پہلووٴں کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
قدامت درود: یعنی جب سے اللہ تعالیٰ ہے اورجب سے فرشتے ہیں اتنا ہی درود شریف بھی قدیم ہے کیونکہ وہ تب ہی سے آپﷺ پر درود شریف بھیج رہے ہیں“۔
قدوقامت ِ درود : یعنی اللہ تعالیٰ جو لامحدود ہے اس کی طرف سے درود شریف کی معنویت بھی لامحدود ہوگی‘ فرشتوں کے درود کی مقدار اورقدرو قیمت کا صحیح اندازہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اگر مخلوق کو دس حصّوں میں تقسیم کر دیا جائے تو نو حصے فرشتوں کے ہوں گے اورایک حصہ باقی تمام مخلوق کا۔
مداومت درود : اس کامطلب یہ ہے کہ درود شریف کا عمل ابد تک جاری رہے گا۔درود شریف زمان ومکاں کی قیود سے آزاد ہے یہ مخصوص زمانے یا مخصوص وقت کی بجائے ہر زمانے اور ہر وقت میں پڑھا جانے والا عمل ہے۔ کائنات کے درہم برہم ہونے پربھی اوراللہ تعالی اوراس کے فرشتوں کا اس نبی مکرمﷺ پردرود شریف بھیجنے کا عمل جاری و ساری رہے گا۔
مذکورہ بالا آیت کے مطابق سنتِ الیہ اورسنتِ ملائکہ کے عمل کو عظمت اور رفعتِ شان بیان کرنے کے بعد پھر ایمان والو کو اس کا باقاعدہ حکم دیا گیا۔ ترجمہ ”اے ایمان والو مل کر درود شریف بھیجو اور سلام بھیجو خوب خوب عاجزی کے ساتھ۔
دنیا میں دن رات کے ہر لمحہ اذان اورنماز جاری ہے اورکوئی نماز اور اذان ایسی نہیں ہے جس میں ذکرالٰہی کے ساتھ ذکر رسولﷺ موجود نہ ہو یہ ”ورفعنالک ذکرک“ کی ایک مثال ہے مسلمان دن میں 44 رکعتوں میں 16مرتبہ درودشریف اور23 مرتبہ حضورﷺ پر ان الفاظ میں سلام بھیجتے ہیں۔صحاح ستہ میں درود ابراہیمی کے 36 صحیفے منقول ہیں۔ حضرت ابو ہریراہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا۔ ”جوشخص مجھ پرایک بار درود پڑھے اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر498)۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم روٴف ورحیمﷺ نے فرمایا۔ ترجمہ: جومجھ پر ایک بار درود شریف پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اوراس کے دس گناہ معاف کئے جائیں گے اور اس کے درجات بلند کئے جائیں گے (نسائی حدیث نمبر1296)۔ حضرت ابوہریرہ سے ایک اور روایت ہے کہ میں نے حضور سید المرسلین کو یہ فرماتے سنا” مجھ پر درود شریف بھیجا کرو تمہارا درود شریف مجھے پہنچتا ہے‘ تم جہاں بھی ہو۔ ابوداوٴد حدیث نمبر(2042)
الحمد اللہ حضورﷺ کا اپنی امت کودرود شریف کی تلقین و ترغیب کرنا آپﷺ کا ہم پر ایک اور احسانِ عظیم ہے کیونکہ اس طرح درود شریف بھیج کرامتِ محمدﷺ پر سنتِ الیہہ اورسنتِ ملائکہ میں شامل ہوجاتی ہے“ یہ وہ واحد مشترکہ عمل ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے اور فرشتوں کے ساتھ مومنین کو بھی شامل کیا ہے۔
bisma مصنف

Friday, December 12, 2014

-شادی کے لیے وظیفه


★---شادی کے لیے وظیفه---★
سورة المزمل بعدنمازعشاء اورفجرسات سات مرتبه تلاوت کریں ،اورایک سومرتبه درودشریف پڑھ کرگڑگڑاکردعاکریں،ان شاءالله کامیابی نصیب هوگی.
ازقلم:-ابوطیبه مفتی محمدکامران المدنی الرفاعی.
bisma مصنف

حاجتوں کے لئے بسم الله اورنماز




٭٭★حاجتوں کے لئے بسم الله اورنماز★٭٭
«بسم الله الرحمن الرحیم »اس طرح پڑھو کے جب ایک هزارمرتبه هوجائے تودورکعت نماز پڑھ کر درودشریف پڑھو ،اوراپنی مرادکے لئے دعامانگو،پهر ایک هزارمرتبه «بسم الله» پڑھ کردورکعت نمازپڑھو،اوردرودشریف پڑھ کراپنی مرادکے لئے دعامانگو،غرض اسی طرح باره هزار مرتبه «بسم الله»پڑھو اورهرهزارپردورکعت نمازپڑھواورنمازکے بعددرودشریف پڑھ کراپنی مرادکے لئے دعامانگو ان شاء الله تعالی مرادحاصل هوگی.
.
bisma مصنف

امیر المومنین کی چوکیداری کے دوران پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ



امیر المومنین حضرت عمر رضی الله عنہ اپنے خلافت کے زمانہ میں بسا اوقات رات کو چوکیدار کے طور پر شہر کی حفاظت بھی فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اسی حالت میں ایک میدان میں گذر ہوا۔ آپ نے دیکھا کہ ایک خیمہ لگا ہوا ہے جو پہلے وہاں نہیں دیکھا تھا۔ اس کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک صاحب وہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور خیمہ سے کچھ کراہنے کی آواز آرہی ہے۔ آپ سلام کر کے ان صاحب کے پاس بیٹھ گئے اور دریافت کیا کہ تم کون ہو۔ اس نے کہا ایک مسافر ہوں جنگل کا رہنے والا ہوں۔ امیر المومنین کے سامنے کچھ اپنی ضرروت پیش کر کے مدد چاہنے کے واسطے آیا ہوں۔

آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ خیمہ میں سے آواز کیسی آرہی ہے۔ ان صاحب نے کہا میاں جائو اپنا کام کرو۔ آپ نے اصرار فرمایا کہ نہیں بتادو کچھ تکلیف کی آواز ہے۔ ان صاحب نے کہا کہ میری بیوی ہے اور بچے کی ولادت کا وقت قریب ہے، آپ نے دریافت فرمایا کہ کوئی دوسری عورت بھی پاس ہے۔ اس نے کہا کوئی نہیں۔ آپ وہاں سے اٹھے، اپنے گھر تشریف لے گئے اور اپنی بیوی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ایک بڑے ثواب کی چیز مقدر سے تمہارے لئے آئی ہیں۔ انہوں نے پوچھا کیا ہے آپ نے سارا واقعہ بتایا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا ہاں ہاں تمہاری صلاح ہو تو میں تیار ہوں۔

حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ ولادت کے واسطے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہو لے لو اور ایک ہانڈی اور کچھ گھی اور دانے وغیرہ بھی ساتھ لے لو، وہ لے کر چلیں۔ حضرت عمر رضی الله عنہ خود پیچھے پیچھے ہو لیے وہاں پہنچ کر حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا تو خیمہ میں چلی گئیں اور آپ نے آگ جلا کر اس ہانڈی میں دانے ابالے، گھی ڈالا اتنے میں ولادت سے فراغت ہوگئی۔ اندر سے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا نے آواز دے کر عرض کیا۔ امیر المومنین! اپنے دوست کو لڑکا پیدا ہونے کی بشارت دیجئے۔

امیر المومنین کا لفظ جب ان صاحب کے کان میں پڑا تو وہ بڑے گھبرائے۔ آپ رضی الله عنہ نے فرمایا گھبرانے کی بات نہیں۔ وہ ہانڈی خیمہ کے پاس رکھ دی اور اپنی بیوی سے کہا کہ اس عورت کو بھی کچھ کھلا دیں۔ انہوں نے تھوڑی دیر بعد بانڈی باہر دے دی۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اس بدو سے کہا کہ لو تم بھی کھائو۔ رات بھر تمہاری جاگنے میں گذر گئی۔ اس کے بعد اہلیہ کو ساتھ لے کر گھر تشریف لے آئے اور ان صاحب سے فرما دیا کہ کل تمہارے لئے انتظام کر دیا جائے گا۔

(حیات الصحابہ)
bisma مصنف

واقعہ ملکہ بلقیس اور اس کا تخت



واقعہ ملکہ بلقیس اور اس کا تخت:۔

یوں تو سبھی پرندے حضرت سلیمان علیہ السلام کے مسخر اور تابع فرمان تھے لیکن آپ کا ہُدہُد آپ کی فرماں برداری اور خدمت گزاری میں بہت مشہور تھا۔ اسی ہُدہُد نے آپ کو ملک سبا کی ملکہ ''بلقیس'' کے بارے میں خبر دی تھی کہ وہ ایک بہت بڑے تخت پر بیٹھ کر سلطنت کرتی ہے اور بادشاہوں کے شایانِ شان جو بھی سروسامان ہوتا ہے وہ سب کچھ اس کے پاس ہے مگر وہ اور اس کی قوم ستاروں کے پجاری ہیں۔ اس خبر کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کے نام جو خط ارسال فرمایا، اس کو یہی ہُدہُد لے کر گیا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم کاارشاد ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا۔
''تم میرا یہ خط لے کر جاؤ۔ اور ان کے پاس یہ خط ڈال کر پھر ان سے الگ ہو کر تم دیکھو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔'' (پ ۱۹، النمل، ۲۸)


چنانچہ ہُدہُد خط لے کر گیا اور بلقیس کی گود میں اس خط کو اوپر سے گرادیا۔ اس وقت اس نے اپنے گرد امراء اور ارکانِ سلطنت کا مجمع اکٹھا کیا پھر خط کو پڑھ کر لرزہ براندام ہوگئی اور اپنے اراکین سے یہ کہا کہ
ترجمہ قرآن:''اے سردارو!بے شک میری طرف ایک عزت والا خط ڈالا گیا بے شک وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور بے شک وہ اللہ کے نام سے ہے جو نہایت مہربان رحم والا یہ کہ مجھ پر بلندی نہ چاہو اورگردن رکھتے میرے حضور حاضر ہو۔ (پ ۱۹، النمل، ۲۹ تا ۳۱)


خط سنا کر بلقیس نے اپنی سلطنت کے امیروں اور وزیروں سے مشورہ کیا تو ان لوگوں نے اپنی طاقت اور جنگی مہارت کا اعلان و اظہار کر کے حضرت سلیمان علیہ السلام سے جنگ کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس وقت عقلمند بلقیس نے اپنے امیروں اور وزیروں کو سمجھایا کہ جنگ مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے شہر ویران اور شہر کے عزت دار باشندے ذلیل و خوار ہوجائیں گے۔ اس لئے میں یہ مناسب خیال کرتی ہوں کہ کچھ ہدایا و تحائف اُن کے پاس بھیج دوں اس سے امتحان ہوجائے گا کہ حضرت سلیمان صرف بادشاہ ہیں یا اللہ عزوجل کے نبی بھی ہیں۔ اگر وہ نبی ہوں گے تو ہرگز میرا ہدیہ قبول نہیں کریں گے بلکہ ہم لوگوں کو اپنے دین کے اتباع کا حکم دیں گے اور اگر وہ صرف بادشاہ ہوں گے تو میرا ہدیہ قبول کر کے نرم ہو جائیں گے۔ چنانچہ بلقیس نے پانچ سو غلام پانچ سو لونڈیاں بہترین لباس اور زیوروں سے آراستہ کر کے بھیجے اور ان لوگوں کے ساتھ پانچ سو سونے کی اینٹیں، اور بہت سے جواہرات اور مشک و عنبر اور ایک جڑاؤ تاج مع ایک خط کے اپنے قاصد کے ساتھ بھیجا۔ ہُدہُد سب دیکھ کر روانہ ہو گیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں آکر سب خبریں پہنچادیں۔ 

چنانچہ بلقیس کا قاصد جب چند دنوں کے بعد تمام سامانوں کو لے کر دربار میں حاضر ہوا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے غضب ناک ہو کر قاصد سے فرمایا۔

(پ19،النمل:36،37)

ترجمہ قرآن:۔ فرمایا کیا مال سے میری مدد کرتے ہو تو جو مجھے اللہ نے دیا وہ بہتر ہے اس سے جو تمہیں دیا بلکہ تمہیں اپنے تحفہ پر خوش ہوتے ہو پلٹ جا ان کی طرف تو ضرور ہم ان پر وہ لشکر لائیں گے جن کی انہیں طاقت نہ ہو گی اور ضرور ہم ان کو اس شہر سے ذلیل کر کے نکال دیں گے یوں کہ وہ پست ہوں گے۔

چنانچہ اس کے بعد جب قاصد نے واپس آکر بلقیس کو سارا ماجرا سنایا تو بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہو گئی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا دربار اور یہاں کے عجائبات دیکھ کر اس کو یقین آگیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام خداعزوجل کے نبی برحق ہیں اور ان کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ 

حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کواپنے دین کی دعوت دی تو اُس نے نہایت ہی اخلاص کے ساتھ اسلام قبول کرلیا پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس سے نکاح کر کے اس کو اپنے محل میں رکھ لیا۔
اس سلسلے میں ہُدہُد نے جو کارنامے انجام دیئے وہ بلاشبہ عجائبات عالم میں سے ہیں۔ جو یقینا حضرت سلیمان علیہ السلام کے معجزات میں سے ہیں۔


تختِ بلقیس کیا تھا اور کس طرح آیا

ملکہ سبا ''بلقیس''کا تختِ شاہی اَسّی گز لمبا اور چالیس گز چوڑا تھا ،یہ سونے چاندی اور طرح طرح کے جواہرات اور موتیوں سے آراستہ تھا، جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کے قاصد اور اُس کے ہدایا و تحائف کو ٹھکرا دیا اور اُس کو یہ حکم نامہ بھیجا کہ وہ مسلمان ہو کر میرے دربار میں حاضر ہوجائے تو آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ بلقیس کے یہاں آنے سے پہلے ہی اُس کا تخت میرے دربار میں آجائے چنانچہ آپ نے اپنے دربار میں درباریوں سے یہ فرمایا:۔

(پ 19،النمل: 38،39)

ترجمہ قرآن:سلیمان نے فرمایا اے درباریو! تم میں کون ہے کہ وہ اس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہو کر حاضر ہوں ایک بڑا جن بولا میں وہ تخت حضور میں حاضر کردوں گا قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بیشک اس پر قوت والا امانت دار ہوں۔ 

جنّ کا بیان سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اس سے بھی جلد وہ تخت میرے دربار میں آجائے۔ یہ سن کر آپ کے وزیر حضرت ''آصف بن برخیا رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسم اعظم جانتے تھے اور ایک باکرامت ولی تھے۔ انہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے عرض کیا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
(پ19،النمل:40)


ترجمہ قرآن:۔اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے حضور میں حاضر کردوں گا ایک پل مارنے سے پہلے۔

چنانچہ حضرت آصف بن برخیا نے روحانی قوت سے بلقیس کے تخت کو ملک سبا سے بیت المقدس تک حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں کھینچ لیا اور وہ تخت زمین کے نیچے نیچے چل کر لمحہ بھر میں ایک دم حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی کے قریب نمودار ہو گیا۔

تخت کو دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ کہا:۔

(پ19،النمل:40)

ترجمہ قرآن:۔یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بے پرواہ ہے سب خوبیوں والا۔
bisma مصنف

حضرت خضر علیہ السلام اور آب ِ حیات کی حقیقت



حضرت خضر علیہ السلام اور آب ِ حیات کی حقیقت

حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ''بلیا'' اور ان کے والد کا نام ''ملکان'' ہے۔ ''بلیا'' سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ ''احمد'' ہے۔ ''خضر'' ان کا لقب ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ خَضِر، خَضْر، خِضْر۔
''خضر'' کے معنی سبز چیز کے ہیں۔ یہ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپ کی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جاتی تھی اس لئے لوگ ان کو ''خضر'' کہنے لگے۔
یہ بہت ہی عالی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان کے آباؤ اجداد بادشاہ تھے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان ان کا اور ان کے والد کا نام اور ان کی کنیت یاد رکھے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔ (صاوی، ج۴،ص۱۲۰۷،پ۱۵،الکہف:۶۵)

تو آپ بھی ہوسکے تو اس کنیت کو یاد رکھئے گا۔ ابوالعباس بلیا بن ملکان۔

یہ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت ذوالقرنین حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔ (صاوی،ج۴،ص۱۲۱۴،پ۱۶، الکہف:۸۳)

تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہی ہے۔

کیا حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔

اس میں کچھ علماء نے اختلاف کیا ہے۔ لیکن جمہور علماء (یعنی کثیر علماء) کی یہ ہی رائے ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ بلکہ ان کی ملاقات حضرت موسی علیہ السلام سے بھی ثابت ہے حالانکہ آپ کا دور حضرت موسی علیہ السلام سے کئی سوبرس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہے۔
تفسیر روح البیان میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں ان کے درمیان اور اور حضر ت موسی علیہ السلام کے درمیان 400 سال کا فرق ہے۔

تو اس لحاظ سے حضرت موسی علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے تقریبا 600 سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے۔ واللہ تعالی اعلم

امام بدر الدین عینی صاحب شرح بخاری نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ جمہور کا مذ ہب یہ ہے اور صحیح بھی یہ ہے کہ وہ نبی تھے ۔اور زندہ ہیں ۔ (عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری مصنف بدرالدین العینی ۔کتاب العلم،باب ما ذکرفی ذہاب موسی، ج۲،ص۸۴،۸۵)

خدمت بحر(یعنی سمندر میں لوگوں کی رہنمائی کرنا) ا ِنہیں سے متعلق(یعنی انہیں کے سپرد ) ہے اور
اِلیاس علیہ السلام '' بَرّ ''(خشکی) میں ہیں۔(الاصابۃ فی تمیزالصحابۃ،حرف الخاء المعجمۃ،باب ماوردفی تعمیرہ،ج۲،ص۲۵۲)

اسی طرح تفسیر خازن میں ہے کہ ۔اکثر عُلَماء اس پر ہیں اور مشائخِ صوفیہ و اصحابِ عرفان کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں ۔ شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ یہ بھی اسی میں منقول ہے کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا۔

اسی طرح تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ صحابی بھی ہیں۔ (صاوی، ج۴،ص۱۲۰۸،پ ۱۵، الکہف:۶۵)

اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی ان کی ملاقات ثابت ہے۔اور حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو نصیحت بھی فرمائی تھی ۔ کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات سے بچنا کہ تو ظاہر میں تو خدا کا دوست ہو اور باطن میں اس کا دشمن کیونکہ جس کا ظاہر اورباطن مساوی نہ ہو تو منافق ہوتاہے اور منافقوں کا مقام درک اسفل ہے ۔یہ سن کر عمربن عبدالعزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں تک روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی ۔ (تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،مساواتہم السر والعلانیۃ،ص39)

اور بھی بزرگان دین نے ان سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔واللہ تعالی اعلم

آب حیات کی حقیقت:۔

آب حیات کے متعلق بہت اختلاف ہے۔ بعض لوگ اس کو ایک افسانے کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ۔ کیونکہ آب حیات کا تذکرہ نہ قرآن میں ہے نہ ہی کسی صیحح حدیث میں۔

ہاں کچھ علماء کرام نے اس کا تذکرہ اپنی تفسیر میں حضرت ذوالقرنین کے پہلے سفر کے ذمرے میں کیا ہے۔

جیسے کہ تفسیر خزائن العرفان پ۱۶، الکہف: ۸۶تا ۹۸ میں نقل ہے۔حضرت ذوالقرنین نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص چشمہ ء حیات سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنین نے مغرب کا سفر کیا۔ آپ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے وہ تو آب ِ حیات کے چشمہ پر پہنچ گئے اور اس کا پانی بھی پی لیا مگر حضرت ذوالقرنین کے مقدر میں نہیں تھا، وہ محروم رہ گئے۔ اس سفر میں آپ جانب مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی کا نام و نشان ہے وہ سب منزلیں طے کر کے آپ ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ انہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا کہ وہ ایک سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ جیسا کہ سمندری سفر کرنے والوں کو آفتاب سمندر کے کالے پانی میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ وہاں ان کو ایک ایسی قوم ملی جو جانوروں کی کھال پہنے ہوئے تھی۔ ا س کے سوا کوئی دوسرا لباس ان کے بدن پر نہیں تھا اور دریائی مردہ جانوروں کے سوا ان کی غذا کا کوئی دوسرا سامان نہیں تھا۔ یہ قوم ''ناسک''کہلاتی تھی۔ حضرت ذوالقرنین نے دیکھا کہ ان کے لشکر بے شمار ہیں اور یہ لوگ بہت ہی طاقت ور اور جنگجو ہیں۔ تو حضرت ذوالقرنین نے ان لوگوں کے گرد اپنی فوجوں کا گھیرا ڈال کر ان لوگوں کو بے بس کردیا۔ چنانچہ کچھ تو مشرف بہ ایمان ہو گئے کچھ آپ کی فوجوں کے ہاتھوں مقتول ہو گئے۔

اسی طرح تفسیر خازن اور شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر اور الیا جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں ،اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ اور یہ کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی بھی پیا تھا۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔

بس آب حیات یا چشمہ حیات کی اتنی حقیقت ہی کتب میں لکھی ہے۔مگر اصل حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ واللہ تعالی اعلم
bisma مصنف

حضرت ادریس علیہ السلام



bisma مصنف

حضرت یوسف اور ان کے برادران کا قصہ



حضرت یوسف اور ان کے برادران کا قصہ
داستان عشق یا پاكیزگى كا بہترین سبق

حضرت یوسف علیہ السلام كے واقعہ كو بیان كرنے سے پہلے چند چیزوں كا بیان كرنا ضرورى ہے:
بے ہدف داستان پردازوں یا پست اور غلیظ مقاصد ركھنے والوں نے اس اصلاح كنندہ واقعہ كو ہوس بازوں كے لئے ایك عاشقانہ داستان بنانے اور حضرت یوسف علیہ السلام او ران كے واقعات كے حقیقى چہرے كو مسخ كرنے كى كوشش كى ہے،یہاں تك كہ انھوں نے اسے ایك رومانى فلم بناكر پردہ سیمیں پر پیش كرنا چاہا ہے ،لیكن قرآن مجید نے كہ جس كى ہر چیز نمونہ اور اسوہ ہے اس واقعے كے مختلف مناظرسے پیش كرتے ہوئے اعلى ترین عفت وپاكدامنی، خوداری، تقوى ،ایمان اور ضبط نفس كے درس دئے ہیں اس طرح سے كہ ایك شخص اسے جتنى مرتبہ بھى پڑھے ان قوى جذبوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سكتا۔
اسى بنا پر قرآن نے اسے ”احسن القصص” (بہترین داستان) جیسا خوبصورت نام دیا ہے اور اس میں صاحبان فكرونظر كے لئے متعدد عبرتیں بیان كى ہیں ۔
قہرمان پاكیزگی

اس واقعہ میں غوروفكر سے یہ حقیقت واضح ہو تى ہے كہ قرآن تمام پہلو ئوں سے معجزہ ہے اور اپنے واقعات میں جو ہیرو پیش كرتا ہے وہ حقیقى ہیرو ہو تے ہیں نہ كہ خیا لى كہ جن میں سے ہر ایك اپنى نو عیت كے اعتبار سے بے نظیر ہو تا ہے ۔
حضرت ابراہیم ،وہ بت شكن ہیرو ،جن كى روح بلند تھى اور جو طاغوتیوں كى كسى سازش میں نہ آئے ۔
حضرت نو ح،طویل اور پر بر كت عمرمیں ۔ صبر واستقا مت،پا مردى اور دلسوزى كے ہیرو بنے۔
حضرت مو سى وہ ہیر و كہ جنہوں نے ایك سركش اور عصیان گر طاغوت كے مقابلے كے لئے ایك ہٹ دھرم قوم كو تیار كرلیا ۔
حضرت یوسف ;ایك خوبصورت ،ہو س باز اور حیلہ گر عورت كے مقابلے میں پاكیز گى ، پارسائی اور تقوى كے ہیرو بنے۔
علاوہ ازیں اس واقعے میں قرآنى وحى كى قدرت بیان اس طرح جھلكتى ہے كہ انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے كیونكہ جیسا كہ ہم جانتے ہیں كئی مواقع پر یہ واقعہ عشق كے بہت ہى باریك مسائل تك جا پہنچتاہے اور قرآن انہیں چھوڑ كر ایك طرف سے گزر ے بغیر ان تمام مناظر كو ان كى بار یكیوں كے سا تھ اس طرح سے بیان كرتا ہے كہ سا مع میں ذرہ بھر منفى اور غیر مطلوب احساس پیدا نہیں ہوتا ۔ قرآن تمام واقعات كے تن سے گزر تا ہے لیكن تمام مقامات پر تقوى وپاكیزگى كى قوى شعاعوں نے مباحث كا احا طہ كیا ہوا ہے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام كا واقعہ اسلام سے پہلے اور اسلام كے بعد

اس میں شك نہیں كہ قبل از اسلام بھى داستان یوسف لوگوں میں مشہور تھى كیو نكہ تو ریت میں سفر پید ائش كى چو دہ فصلوں (فصل 37تا 50) میں یہ واقعہ تفصیل سے مذكورہے ۔ البتہ ان چودہ فصلوں كا غور سے مطا لعہ كیا جا ئے تو یہ بات ظاہر ہو تى ہے كہ توریت میں جو كچھ ہے وہ قرآن سے بہت ہى مختلف ہے ۔ ان اختلافات كے موازنے سے معلوم ہو تا ہے كہ جو كچھ قرآن میں آیا ہے وہ كس حد تك پیراستہ اور ہر قسم كے خرافات سے پاك ہے۔ یہ جو قرآن پیغمبر سے كہتا ہے :”اس سے پہلے آپ كو علم نہیں تھا ،،اس عبرت انگیز داستا ن كى خالص واقعیت سے ان كى عدم آگہى كى طرف اشارہ ہے۔ (اگر احسن القصص سے مراد واقعہ یوسف ہو ) ۔ موجود ہ توریت سے ایسا معلوم ہوتا ہے كہ حضرت یعقوب نے جب حضرت یوسف كى خون آلود قمیص دیكھى تو كہا :”یہ میرے بیٹے كى قبا ہے جسے جانور نے كھا لیا ہے یقینا یوسف چیر پھاڑڈالا گیا ہے ۔ ”
پھر یعقوب نے اپنا گریبان چا ك كیا ٹاٹ اپنى كمر سے باند ھا اور مدت دراز تك اپنے بیٹے كے لئے گریہ كرتے رہے، تمام بیٹوں اور بیٹیوں نے انہیں تسلى دینے میں كسراٹھا نہ ركھى لیكن انہیں قرار نہ آیا اور كہا كہ میں اپنے بیٹے كے ساتھ اسى طرح غمزدہ قبر میں جائوں گا ۔
جبكہ قرآن كہتا ہے كہ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنى فراست سے بیٹوں كے جھوٹ كو بھانپ گئے اور انہوں نے اس مصیبت میں داد وفریاد نہیں كى اور نہ اضطراب دكھا یا بلكہ جیسا كہ انبیاء علیہم السلام كى سنت ہے اس مصیبت كا بڑے صبر سے سا منا كیا اگر چہ ان كا دل جل رہا تھا، آنكھیں اشكبار تھیں ، فطر ى طور پر كثرت گریہ سے ان كى بینا ئی جاتى رہى ۔ لیكن قرآن كى تعبیر كے مطابق انہوں نے صبر جمیل كا مظاہرہ كیا اور اپنے اوپر قابو ركھا ۔انہوں نے گریبان چاك كر نے ، دادو فریاد كرنے اور پھٹے پرا نے كپڑے پہنے سے گریز كیا جو كہ عزادارى كى مخصوص علامات تھیں ۔
بہر حال اسلام كے بعد بھى یہ واقعہ مشرق مغرب كے مو رخین كى تحریروں میں بعض اوقات حاشیہ آرائی كے ساتھ آیا ہے فارسى اشعار میں سب سے پہلے ”یوسف زلیخا ،،كے قصے كى نسبت فردوسى كى طرف دى جاتى ہے اس كے بعد شہاب الدین عمق اور مسعودى قمى كى ”یوسف زلیخا”ہے اور ان كے بعد نویں صدى كے مشہور شاعر عبدالرحمن جامى كی” یوسف زلیخا ”ہے ۔
احسن القصص

قران میں داستان یوسف كو شروع كرتے ہوئے خدافرماتا ہے:”ہم اس قران كے ذریعہ (جو اپ پر وحى ہوتى ہے )،كے ذریعہ ”احسن القصص ”بیان كرتے ہیں ”۔ ( سورہ یوسف آیت 3)یہ واقعہ كیسے بہترین نہ ہو جب كہ اس كے ہیجان انگیز پیچ وخم میں زندگى كے اعلى تر ین دروس كى تصویر كشى كى گئی ہے ۔ اس واقعے میں ہر چیز پر خدا كے اراد ے كى حاكمیت كا ہم اچھى طرح مشاہدہ كرتے ہیں ۔
حسد كرنے والوں كا منحوس انجام ہم اپنى آنكھوں سے دیكھتے ہیں اوران كى سازشوں كونقش بر آب ہو تے ہو ئے دیكھتے ہیں ۔
بے عفتى كى عارو ننگ اور پارسا ئی وتقوى كى عظمت وشكوہ اس كى سطور میں ہم مجسم پاتے ہیں كنویں كى گہرائی میں ایك ننھے بچے كى تنہائی، زندان كى تاریك كو ٹھرى میں ایك بے گناہ قیدى كے شب وروز ، یاس ونا امیدى كے سیاہ پردوں كے پیچھے نو ر امید كى تجلى اور آخر كار ایك وسیع حكو مت كى عظمت وشكوہ كہ جو آگاہ ہى وامانت كا نتیجہ ہے یہ تمام چیز یں اس داستان میں انسان كى آنكھوں كے سامنے سا تھ سا تھ گزر تى ہیں ۔
وہ لمحے كہ جب ایك معنى خیز خواب سے ایك قوم كى سر نوشت بدل جاتى ہے ۔
وہ وقت كہ جب ایك قوم كى زندگى ایك بیدا ر خدا ئی زمام دار كے علم وآگہى كے زیر سا یہ نابودى سے نجات پالیتى ہے ۔
اور ایسے ہى دسیوں درس ، جس داستا ن میں مو جود ہوں وہ كیوں نہ ”احسن القصص”ہو ۔
البتہ یہى كافى نہیں كہ حضرت یوسف علیہ السلام كى داستان ”احسن القصص” ہے اہم بات یہ ہے كہ ہم میں یہ لیاقت ہو كہ یہ عظیم درس ہمارى روح میں اتر جائے۔
بہت سے ایسے لوگ ہیں جو حضرت یوسف علیہ السلام كے واقعہ كو ایك اچھے رومانوى واقعہ كے عنوان سے دیكھتے ہیں ، ان جا نو روں كى طرح جنھیں ایك سر سبز وشاداب اور پھل پھو ل سے لدے ہوئے باغ میں صرف كچھ گھا س نظر پڑتى ہے كہ جو ان كى بھو ك كو زائل كردے ۔
ابھى تك بہت سے ایسے لوگ ہیں كہ جو اس داستا ن كو جھو ٹے پر وبال دے كر كوشش كرتے ہیں كہ اس سے ایك رومانوی (Romantic)داستان بنا لیں جب كہ اس واقعہ كے لئے یہ بات نا شائستہ ہے اور اصل داستان میں تمام اعلى انسا نى قدر یں جمع ہیں آئند ہ صفحات میں ہم دیكھیں گے كہ اس واقعہ كے جامع خو بصورت پیچ وخم كو نظر انداز كر كے نہیں گزرا جاسكتا ایك شاعر شیریں سخن كے بقول :
”كبھى كبھى اس داستان كے پر كشش پہلوئوں كى مہك انسا ن كو اس طرح سر مست كر دیتى ہے كہ وہ بے خود ہو جاتا ہے۔ ”
امید كى كرن او ر مشكلات كى ابتدا ء

حضرت یوسف علیہ السلام كے واقعے كا آغاز قرآن ان كے عجیب اور معنى خیز خواب سے كرتا ہے كیونكہ یہ خواب دراصل حضرت یوسف كى تلا طم خیز زندگى كا پہلاموڑ شمار ہو تا ہے ۔
ایك دن صبح سویر ے آپ بڑے شوق اور وار فتگى سے باپ كے پاس آئے اور انہیں ایك نیا واقعہ سنا یا جو ظا ہر اً كو ئی زیادہ اہم نہ تھا لیكن درحقیقت ان كى زندگى میں ایك تازہ با ب كھلنے كا پتہ دے رہا تھا ۔
”یو سف نے كہا :ابا جان : یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا ۔ ‘(سورہ یوسف آیت 4)حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ خواب شب جمعہ دیكھا تھا كہ جو شب قدر بھى تھى (وہ رات جو مقدرات كے تعین كى رات ہے ) ۔
یہاں پر سوال یہ پید ا ہوتا ہے كہ حضرت یوسف نے جب یہ خواب دیكھا اس وقت آپ كى عمر كتنے سال تھى ‘اس سلسلے میں بعض نے نو سال’ بعض نے بارہ سال اور بعض نے سات سال عمر لكھى ہے جو بات مسلم ہے وہ یہ ہے كہ اس وقت آپ بہت كم سن تھے ۔
اس ہیجان انگیز اور معنى خیز خواب پر خدا كے پیغمبر یعقوب فكر میں ڈوب گئے كہ سورج ،چاند اور آسمان كے گیارہ ستارے ،وہ گیا رہ ستارہ نیچے اترے اور میرے بیٹے یوسف كے سامنے سجدہ ریز ہو گئے ۔
یہ كس قدر معنى آفر یں ہے یقینا سورج اور چاند میں اور اس كى ماں (یامَین اور اس كى خالہ ) ہیں اور گیارہ ستارے اس كے بھائی ہیں میرے بیٹے كى قدر ومنزلت اور مقام اس قدر بلند ہو گا كہ آسمان كے ستارے ، سورج اور چاند اس كے آستا نہ پر جبیں سائی كریں گے یہ بار گاہ الہى میں اس قدر عزیز اور باوقار ہو گا كہ آسمان والے بھى اس كے سامنے خضوع كریں گے كتنا پر شكوہ اور پر كشش خواب ہے ۔
لہذا پریشانى اور اضطراب كے انداز میں كہ جس میں ایك مسرت بھى تھى ،اپنے بیٹے سے كہنے لگے  کہا اے میرے بچے اپنا خواب اپنے بھائیوں سے نہ کہنا وہ تیرے ساتھ کوئی چال چلیں گے بیشک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے ( سورہ یوسف آیت 5)
وہ مو قع كى تاڑمیں ہے تا كہ اپنے وسوسو ں كا آغاز كرے ، كینہ وحسد كى آگ بھڑ كا ئے یہا ں تك كہ بھا ئیوں كو ایك دوسرے كا دشمن بنادے۔ لیكن یہ خواب صرف مستقبل میں یو سف كے مقام كى ظاہرى ومادى عظمت بیان نہیں كرتا تھا بلكہ نشا ندہى كرتا تھا كہ وہ مقام نبوت تك بھى پہچنیں گے كیونكہ آسمان والو ں كا سجدہ كرنا آسمانى مقام كے بلند ى پر پہنچنے كى دلیل ہے اسى لئے تو ان كے پدر بزر گوار حضرت یعقوب نے مزید كہا :
اور اسی طرح تجھے تیرا رب چن لے گا اور تجھے باتوں کا انجام نکالنا سکھائے گا اور تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے گا اور یعقوب کے گھر والوں پر جس طرح تیرے پہلے دنوں باپ دادا ابراہیمؑ اور اسحٰقؑ پر پوری کی بیشک تیرا رب علم و حکمت والا ہے۔ ”(سورہ یوسف آیت 6)

bisma مصنف

ویڈیو

Event more news